خود آگہی بے خبری سے کہیں بڑی نعمت ہے

ایک عورت اپنے رُوپ سروپ، جامہ زیبی کے سراہے، پسند کیے جانے پہ جس قدر نہال، باغ باغ ہوتی ہے، کم ہی کسی اور جملے پر اتنی شاداں و فرحاں ہوتی ہے۔ذرا کسی خاتون سے کہہ تو دیکھیں کہ ”آپ قدرت کا ایک حسین شاہ کار ہیں۔“ یا ”بناؤ سنگھار کوئی آپ سے سیکھے کہ جامہ زیبی تو آپ پر ختم ہے۔“ وہ دِنوں، مہینوں ہواؤں میں اُڑتی نہ رہے، تو کہیے گا۔

ایویں ای تو شعراء نے عورت کے ظاہری حُسن و جمال کی مدح سرائی میں دیوان کے دیوان سیاہ نہیں کر دیے۔جاوید اختر کی ”حُسنِ جاناں کی تعریف ممکن نہیں….. سے لے کر احمد فراز کی ”سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں….. سو، اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں۔“ تک، محض عورت کے سراپے، سُندرتا و کوملتا ہی کی تو قصیدہ خوانی ہے۔

ویسے تو ایک مصرع، اب ضرب المثل بن چُکا ہے کہ نہیں محتاج زیور کا، جیسے خوبی خدا نے دی۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ کی عطا کردہ خوبیوں، اوصاف سے انصاف، سنوار و نکھار کا طریقہ سلیقہ بھی کوئی خال خال ہی رکھتا ہے اور جسے یہ ہنر حاصل ہو جائے۔جو اپنی ذات و شخصیت کی کمیوں، زیادتیوں کا ادراک کر لے، پھر اس کی سج دھج، جامہ زیبی و دل آویزی بھی ضرب المثل ہی ٹھہرتی ہے کہ بلاشبہ خُود آگہی، بے خبری سے کہیں بڑی نعمت ہے۔

گرچہ یہ نعمت ہر ایک کو میسّر نہیں کہ آج بھی اَن گنت لوگ ایسے ہیں، جو اپنی ذات کی خُوبیوں، خامیوں سے سرے سے آگاہ ہی نہیں، خصوصاً زیادہ تر خواتین تو عُمر بھر اپنی ذات کی پوشیدہ صلاحیتوں کو سامنے لانے، اجاگر کرنے سے گریزاں ہی رہتی ہیں، یا پھر اُنہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ درحقیقت کِن ہزارہا گُنوں، اوصاف سے متّصف ہیں اور اِسی بے خبری میں ساری حیاتی اپنے ایک محدود دائرے، حُجرے ہی میں گزار دیتی ہیں۔
اور کچھ نہیں، تو کم از کم پہننے اوڑھنے کا ڈھنگ، طریقہ تو ہر عورت کو آنا ہی چاہیے۔
اتنا تو پتا ہو کہ اُن کے قد کاٹھ، رنگ رُوپ، خال و خد کے ساتھ کیسے رنگ و انداز لگّا کھاتے، اُن پر پھبتے سجتے ہیں، اُن کی شخصیت، رُوپ سروپ کو چار چاند لگاتے ہیں۔اور یہ علم ہو گا، تب ہی تو ظاہری شخصیت سے آرائش و زیبائش، سولہ سنگھار کی ہم آمیزی ہو گی۔ خُود آراستگی، فطری حُسن کو جِلا بخشے گی، نہ کہ بے ڈھب، بوجھل کر کے طنز بَھری نظروں کے مقابل لا کھڑا کرے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں