خوش حال رامبلا۔۔۔ پریشان رامبلا( سفرنامہ سپین)

حسنین نازش:
قسط.7

یسوع مسیح کے دل کے مقدس چرچ سے واپس آتے ہی ہمیں شعیب کا فون وصول ہو۔اس نے ہمیں کہا کہ وہ بارسلونا کی مشہور سڑک رامبلا میں بڑی کیٹ( بگ کیٹ) کے مجسمے کے قریب ہمارا انتظار کرے گا۔
ہم نے اس سے پوچھا بگ کیٹ کا مجسمہ کیا ہے؟
ہمیں جواب دیا گیا کہ یہاں ایک بڑے سائز کی ایک کالی سی بلی کا مجسمہ بنا ہوا ہے ۔ یہ بہت اہم اور مشہور جگہ ہے۔آپ کسی سے پوچھیں گے تو آپ کو وہ وہاں کا پتہ بتا دیں گے۔فیصل گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اگلے آدھے گھنٹے کے قریب رامبلا سٹریٹ پہنچا۔ اس یہاں گاڑی پارک کا مسئلہ درپیش ہوا۔ خاصے تردد اور کوشش کے بعد بالآ خر گاڑی کے لیے پارکنگ کی جگہ مل گئی۔ گاڑی کو پارک کرنے کے بعد چہل قدمی کرتے ہوئے بارسلونا کی مشہور سٹریٹ رامبلا پہنچے۔ یہ اسٹریٹ تقریباََ سوا میل لمبی ہے۔یہاں ہر وقت لوگوں کا تانہ بندھا رہتا ہے۔ اس وقت شام کے سائے ڈھل چکے تھے ۔ بارسلونا شہر روشنیوں میں نہا چکا تھا۔ ہلکی بارش کچھ دیر پہلے تھم چکی تھی۔

ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی اس سٹریٹ میں کافی گہما گہمی تھی۔رامبلا کی اس سڑک کا تقابلہ کسی طور نیویارک کے ٹائم سکوئرز یا چین کے تھیامن سکوائر سے نہیں کیا جاسکتالیکن یہاں کی پُر رونق دنیا کا موازنہ ہ ایتھنز کی مصروف مونستراکی سٹریٹ سے کیا جا سکتا ہے۔ یہاں بھی مجھے سیاحوں کے غول ایسے ہی نظر آئے جیسے میں نے ایتھنز میں دیکھے تھے۔ ویسی ہی جگمگاتی، پُررونق، رقص و سرور کی حامل شہر کی مرکزی سٹریٹ ۔ سٹریٹ فوڈ کے ڈاھابے، ہسپانوی ، انڈین اور پاکستانی ریستوران دعوت کام و دہن دے رہے تھے۔ سٹریٹ سنگرز اور مداری اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کر کے داد و تحسین کے ساتھ ساتھ یورو بھی سمیٹ رہے تھے۔
یہاں جگہ جگہ سوینئیر شاپس اور ٹھیلے تھے۔ ان دکانوں اور ٹھیلوں میں بارسلونا اور سپین کے متعلق لا تعداد سوئینیرز بکنے کے لیے سجے ہوئے تھے۔ ہسپانوی بھینسا ان سب میں پیش پیش تھا۔ ان اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں البتہ فریج میگنٹ صرف ایک یورو کا بک رہا تھا۔ اس لیے چند میگنٹ دوستوں عزیزوں کے لیے خریدے۔
ہمیں وہ خوبصورت بلی کے مجسمے تک پہنچتے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں لگا۔
ہم اس بڑی بلی کے مجسمے ساتھ لگ کر اپنے بارسلونا کے گائیڈ شعیب کا انتظار کرنے لگے۔
تھوڑی دیر بعد ہمیں ایک دھان پان سا نوجوان شعیب ملا ۔
اس نے نہایت گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا۔یہی شعیب تھا۔
صاحب سلامت کے بعد ہم نے سب سے پہلے شعیب سے اس کالی بڑی بلی (بگ بلیک کیٹ) کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا:
ــؔؔ’’یہ ایک بلی کا کانسی کا بنا مجسمـہ ہے۔ کچھ لوگ اور خاص کر پاکستانی، ہندوستانی اور بنگلہ دیشی اگر کسی دوسرے کو ٹائم دیں تو وہ یہی کہتے ہیں کہ یار بلی کے پاس آ جانا ۔میں وہاں پہ پہنچ جاؤں گا۔

آئیے میں آپ کو رامبلا روال جس کو پریشان رملہ کہا جاتا ہے اس کی سیر کرواتا ہوں۔‘‘شعیب بولا۔
’’ارے بھائی ! یہاں تو ہر اک خوش حال دکھائی دیتا ہے۔ یہاں تو کسی کے چہرے پر پریشانی کا کوئی نام ونشان موجود نہیں ہے۔‘‘ فیصل رحمان نے شعیب کو مخاطب کیا۔
’’ آج نہیں تو عشروں پہلے یہ جو کرسیاں آپ دیکھ رہے ہیں آپ۔ یہاں پر ہی بیٹھ کے پریشان حال لوگ اپنے دکھی حالات ایک دوسرے سے بیان کرتے تھے۔ اُس وقت جو پاکستانی، انڈین، بنگلہ دیش لوگ ڈنکی لگا کر کسی نہ کسی طرح سپین پہنچ جاتے تھے مگر اپنے ورک پرمٹ نہ ہونے ، بے روزگاری کے مسائل اور دیگر مسائل کی پوٹلیاں بغل میں دابے ادھرآ کے بیٹھ جاتے۔ وہ اس بلی کا بھی نظارہ کرتے ۔اصل میں یہاں بلی کا مجسمہ ہیتوجہ کا مرکز ہو اکرتا تھا۔ اگرچہ ان غیر ملکی تارکین وطن کے لیگل پیپر نہیں تھے، کارڈ نہیں تھے لیکن وہاں دھوپ زیادہ تھی۔ اس لیے لوگ یہاں پر بیٹھنے لگے ۔بے کار لوگوں نے یہاں سارا سارا دن بیٹھ کر اخبار پڑھنا اور کینو کھانے کو عادت بنا لیا تو یہاں کے مقامی ہسپانیوی باشندوں کو دھوپ سینکنے کے لیے کوئی دوسرا مناسب مقام نہیں ملا ۔وہ جب بھی یہاں ان بنچوں پر بیٹھنے کی غرض سے آتے تو ان بنچوں پر پہلے ہی سے ان غیر ملکیوں کو قابض پاتے۔ پھر پولیس نے ان کو مار مار کے یہاںسے بھگایا ۔لیکن ابھی بھی اس کا نام پریشان رمبلا ہی ہے لیکن اب یہاں پریشان حال پردیسی رات ہی کو فارغ بیٹھتے ہیں۔ آئے ہم بھی ان پریشان بنچوں پر کچھ دیر کے لیے بیٹھ کر اپنی پریشانیوں کا تبادلہ کریں۔‘‘شعیب نے گویا بلی اور پریشان رامبلا کی ساری کہانی سنادی۔
ہم نے اس کے اصرار پر ایک قریبی بینچ پر بیٹھنا مناسب سمجھا۔ ہمارے پیٹ میں اس وقت چوہوں کی دوڑ بھی شروع ہو چکی تھی۔بارسلونا کی اس سٹریٹ کا کھانا بہت مشہور ہے۔ یہاں فرنچ، ہسپانوی، میکسیکن، چائینز ، کانٹینینٹل کھانے روایتی لذتوں کے ساتھ ساتھ ہسپانیوی طرز سے بنا کر سیّاحوں کو پیش کیے جاتے ہیں۔ یہاں ہم نے ایک مقامی ڈش’’ بری تو‘‘ ، ’’کروکیوٹس‘‘کھائی۔اس کے علاوہ’’ پائیلا ‘‘کھائی جو پلائو قسم کی لوکل ڈش ہے۔

مارے اردگرد اکثر لوگ بینچوں پر بیٹھے مقامی کھانوں کے علاوہ کینو کا جوس اور کافی کی چسکیاں لے رہے تھے۔
آتے جاتے ہسپانوی سیّاحوں کو پہچانتے ہوئے ’’ہولا‘‘ کہہ کر اپنے تاریخی اور عظیم شہر میں گویا خوش آمدید کہہ رہے تھے۔
تھوڑی دیر آتے جاتے لوگوں پر اچتی ہوئی نگائیں ڈال کر ہم شعیب کے ساتھ رامبلا کے ساحلی علاقے کے مخالف جانب ل چل پڑے۔ اسے خوشحال رامبلا کہتے ہیں۔ ہم آہستہ آہستہ چلتے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ جہاں جہاں ضرورت پیش آئی موبائل فون سے تصویر کشی کی۔
سڑک کے عین چوراہے پر پہنچ کر شعیب نے بتایا:
یہ ہے خوشحال رامبلا۔اسے خوش حال رامبلا اس لیے کہتے ہیںکہ یہ سیّاحتی علاقہ ہے۔ جوسیّاح حضرات انگلینڈ ،یو ایس اور دوسرے ملکوں سے آتے ہیں یہ علاقہ ان کے لیے اس لیے مخصوص ہے کہ امیر زادے ہی یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ بلند عمارات، شاپنگ مال، بڑے بڑے برانڈز کی آوٹ لیٹس یہاں موجود ہ ہیں جہاں ان غیر ملکی سیّاحوں کا ہر وقت تانبا بندھا رہتا ہے۔ یہاں کاروباری سرگرمیاں ہمہ وقت نقطہ عروج پر رہتی ہیں۔ یورو کی بارش ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے اسے خوش حال رامبلا کہتے ہیں۔‘‘
شعیب ہمیں ساتھ لے کر رامبلا کی گلیوں میں لے گیا۔ یہ گلیاں کسی حد تک تنگ اور نستباََ تاریک تھیں۔ اگر انہیں بھو بھلیاں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ان گلیوں میں بہت سی کپڑوں، جوتوں، سبزیوں، پھلوں اور سوینئیرز کی دکانیں تھیں۔
انہی گلیوں میں انڈین فلم ’’ زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘‘کی شوٹنگ بھی یہاں ہوئی تھی۔ انہی گلیوں میں گھومتے ہوئے ہمیں موسیقی کی آواز آئی۔موسیقی کی آواز سنائی دے اور یار لوگ ادھر دھیان نہ دیں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
ایک گلی کا موڑ مڑا تو یہ گلی ایک بڑی گلی میں جا کھلی۔یہاں بہت سی بھیڑ تھی۔ بہت سے لوگ اکٹھے تھے۔
لوگوں کا جم غفیر تھا۔چاروں طرف لوگ دائرے کی صورت میں کھڑے تھے جبکہ ان کے درمیان میں تین نوجوان اپنے بدنی کرتب دکھا رہے تھے ۔ ساتھ ہی ساتھ موسیقی کے دھنیں پورے ماحول میں سُر بکھیر رہی تھیں۔لوگ کرتب کے ایک ایک تائو پیچ پر تالیاں بجاترہے تھے۔
سپینش ،انگریزی ، ہندی ، عربی، فرانسیسی جس کی جو جوزبان تھی اس میں’’ ہُررر، ہررے‘‘کر کے کی ہمت ب بندھاتے رہے۔آخر میںنوجوانوں نے اپنے اپنے ہیڈ اتارے اور لوگوں سے اپنی داد یورو کی صورت میں وصول کی ۔
ہم نے بھی ایک جیب سے ریزگاری نکال کر ان کے فن کی نذرکی۔
چلتے چلتے ہم ایک اگلے سکوائر کی طرف گئے ۔یہاں بھی موسیقی کے دھنیں بج رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی فوجی بینڈ بج رہا ہو اور فوجی پریڈ کا گزر ہو رہا ہو لیکن جب قریب پہنچے تو دیکھا کہ یہاں بھی ایک دائرے کی صورت میں میں درجنوں بلکہ سینکڑوں افراد کھڑے تھے تالیاں بجا رہے تھے۔چند نوجوان دائرے کی صورت میں براس بینڈ بجا رہے تھے ان کے درمیان تین گھوڑے موسیقی کی دھنوں پر رقص کر رہے تھے۔یہ منظر ہمارے لیے کس حد تک ا چھنبے کی بات اس لیے تھی کہ ہمارے پنجاب کے کلچر میں گھوڑوں کا رقص شامل ہے ۔
میلے ٹھیلوں کے علاوہ شادیوں میں بھی گھوڑوں کے رقص کی ایک اپنی اہمیت اور افادیت اور فیشن ہے۔
ہم تینوں بھی گھوڑوں کے رقص کو قریب سے دیکھنے کے لیے لوگوں کے درمیان آن گھسے۔ گھوڑے موسیقی کے سُروںپر محو رقصاں تھے لیکن جب غور سے دیکھا گیا تو علم ہوا کہ یہ ایک اصل گھوڑے نہیں ہیں بلکہ دو افراد ہیں آگے پیچھے کھڑے ہیں جنہوں نے اپنے اوپر گھوڑوں کی زین چڑھا رکھی ہے اور ایسی چاد ر اوڑھ ر رکھی ہے کہ دور سے دیکھنے پر یوں گمان ہوتا ہے کہ یہ اصل گھوڑے ہیں۔
مجھے یہاں اندازہ ہوا کہ ہمارے گھوڑوں کا رقص کم از کم سپین کے اس بناوٹی گھوڑوں کے رقص سے بہت زیادہ ترقی یافتہ ہے کیونکہ ہم تو گھوڑوں سے اصل میں رقص کروانا جانتے ہیں جبکہ یہاں آدمی ہی ہے جو کہ گھوڑے کی کھال پہن کر رقص کر رہے تھے۔ یہاں سے آگے بڑھ کر ہم ایک پاکستانی ریستوران میں جا گھسے جہاں دیسی کھانوں کے سواد ہمارے منتظر تھے۔
جاری ہے….

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں