آج کل ہر طرف بالخصوص لاہور میں ”دھند نما دھواں ہی دھواں“ پھیلا ہوا ہے۔ چند سال قبل پہلی بار، اچانک نمودار ہونے والے اس”دھواں دار“ماحول کے بارے میں ہر اک کی زبان پر اس کی ”پُراسراریت“ کے تذکرے رہے، فیس بْک پر چلنے والی، بعض افواہوں نے، کئی لوگوں کے چہرے”دھواں دھواں“ کر دیئے۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ ”یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے۔۔۔؟“
چند سال قبل جب پہلی بار یہ سموگ پھیلی، اس وقت دھرنے کے حوالے سے،پورے مْلک میں فکرو خدشات کی ایک لہر اْٹھی ہوئی تھی،اس وقت بھی سموگ کی شدت کے باوجود پنجاب حکومت روٹین سے چلتی رہی، بس صرف ”پْراسرار دھوئیں“ کی شدت و اثرات کو جانچنے کے لئے ایک کمیٹی بنا دی گئی (جس کی رپورٹ کبھی مشتہرنہ کی گئی)۔ذرائع ابلاغ بھی اپنے اپنے طور پر اس پر تبصرے کرتے رہے اور اپنے اپنے انداز میں ”آگہی“ پھیلانے میں لگے رہے، اس کی توجیہہ اور اسباب کو مختلف پہلوؤں سے اْجاگر کیا جاتا رہا،آج کل کہا جا رہا ہے کہ بھارت میں پھیلی فضائی آلودگی کے شدید اثرات اس کا موجب بنے ہیں اور ساتھ لاہور کی فضائی آلودگی بھی بڑھاوا دے رہی ہے۔ سموگ کی سنگینی بڑھی، عوام بہت زیادہ متاثر و بیمار ہوئے اور شور و احتجاج بڑھا تو اب پنجاب حکومت نے ”سموگ ایمرجنسی“ نافذ کر دی ہے۔
اگرچہ پہلے بھی اور اب بھی ہر اک کی توجیہہ اور سبب الگ دکھائی دیا، مگر اس کے مضر اثرات پر سب کا اتفاق رہا۔ اس بدترین سموگ میں نائیٹروجن آکسائیڈ سے بچوں اور مریضوں پر زیادہ اثرات کی بات کی جا رہی ہے، جبکہ متاثر ہونے والے ہر شخص کی آنکھیں جل رہی ہیں اور سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ لوگ خوفزدہ ہو رہے ہیں، کاروبار متاثر ہو رہا ہے، پروازوں کا شیڈول بھی متاثر ہو چکا ہے، سوچوں اور وسوسوں کے ساتھ ساتھ افواہیں بھی پھیل رہی ہیں،کوئی کچھ کہہ رہا ہے، کوئی کچھ اور کہہ رہا ہے۔۔۔
اور میرے سامنے خالق ارض و سماء کی مقدس کتاب کھلی ہے جس کی سورت الدخان کی آیت نمبر11-10 مجھے جھنجھوڑ رہی ہے، باری تعالیٰ فرماتے ہیں: یعنی ”تم انتظار کرو، اس دن کا کہ جب آسمان ایسا واضح دھواں لائے گا جو لوگوں کو گھیر (ڈھانپ) لے گا، یہ درد ناک عذاب ہے“۔
اِس دْنیا کے تمام ذرائع ابلاغ وہ ”آگاہی“ فراہم نہیں کر سکتے، جو علیم و خبیر ذات حقیقی فراہم کر رہی ہے۔ اگرچہ علماء تفسیر، ان آیات میں مذکورہ ”پھیلے دھوئیں“ کو قربِ قیامت کی بڑی نشانی بتاتے ہیں اور اب بھی علمائے کرام کہہ سکتے ہیں کہ ”جس دھوئیں نے شہروں کو آج کل گھیرا ہوا ہے، یہ وہ نہیں۔وہ تو قیامت کے قریب آئے گا“۔ تو ان کی خدمت میں اتنا تو عرض کیا جا سکتا ہے کہ حضور! قیامت کب آئے گی؟ اس کا علم تو سوائے خالق و مالک کے کسی کے پاس نہیں،دوسرا یہ کہ ”قیامت کی نشانیوں میں جو ترتیب و تواتر ہے، کیا اس کا دورانیہ یا وقت مقررہ، واضح انداز میں بیان ہوا ہے؟“ یہ ”پْراسرار دھواں“ وہ نہ بھی ہو اور اس کی سائنسی توجیہہ خواہ کچھ بھی بیان کر دی جائے اس کو ایک تنبیہہ تو کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس کے اچانک چھا جانے اور انسانی وجود اور انسانی زندگی کو بْری طرح متاثر کرنے پر خالق سے رجوع کرنے،برائیوں سے رکنے (سیاسی بولی میں کرپشن)، بدقماشیوں اور بدمعاشیوں کو چھوڑنے کی بات کرنے میں کیا ہرج ہے؟
معمولی سے دْنیاوی مفادات کی خاطر، دوسروں کو دھوکا دینے اور اپنوں کے گلے کاٹنے سے باز رہنے اور آخرت کی تیاری کرنے کی تلقین کرنے میں کیا قباحت ہے؟۔۔۔ ہم اچھے بھلے،سنجیدگی سے اپنا کالم لکھ رہے تھے کہ ”جیلا بی بی سی“درانہ وار، میرے کمرے میں داخل ہو گیا وہی پرانا انداز،سانس چڑھا ہوا تھا، آتے ہی کرسی پر ڈھے سا گیا، بولا تو آواز(خلافِ معمول) بھاری بھاری سی تھی، اْس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں لال ہو رہی تھیں اور ناک سے پانی بہہ رہا تھا، مَیں نے اس کی سْنے بغیر پوچھا ”جیلے! تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی، کیا ہوا ہے؟ کہنے لگا: مَیں اکیلا نہیں، گھر کے تمام لوگ بیمار ہیں اور یہ اس ظالم دھواں دار دھند جسے تم لوگ سموگ کہہ رہے ہو کے باعث ہے، یہ عذاب کی طرح مسلط ہو گئی ہے، مَیں تو گھر سے بھاگتا ہوا پوچھنے آیا ہوں کہ پچھلے چند سال سے ہر سال اچانک چھا جانے والا یہ عذاب کب ختم ہو گا؟“ مَیں نے کہا ”دْعا کرو، بارش، رحمت کی صورت آ جائے اور یہ ختم ہو“ کہنے لگا ”سْنا ہے پہلے سال تو دھرنے والوں پر اندھا دھند آنسو گیس کے پھینکے گئے گولوں سے دھواں نکلا تھا اور سموگ بن گیا مگر اب بھارت نے سازش کر کے ہماری طرف بھیجا ہے۔۔۔!
مَیں اْس کی بات سْن کر ہنس دیا، مَیں نے کہا، تم وہ بات کر رہے ہو جو تب دھرنے والوں کو بھی نہ سوجھی ہو گی نہ ہی اب کسی ”محب ِ وطن“ کو سوجھی ہو گی!“۔ کہنے لگا ”فیس بْک“ پر کسی نے ایسا ہی لکھا ہے کہ پہلے سال شیلنگ اتنی زیادہ تھی کہ اْس کا زہریلا دھواں تحلیل نہیں ہو پایا، وہ اس ”دھواں دار دھند“ کی شکل میں، پنجاب والوں پر مسلط ہو گیا تھا اور اب بھارتی سائنسدان اس کی مثل ہی سموگ بنا رہے ہیں تا کہ پاکستانیوں کو مارا جائے“۔ مَیں اْس کی بات پر پھر مسکرا دیا اور کر بھی کیا سکتا تھا، کہ حوالہ ”فیس بْک“ کا آ گیا تھا، اْسی ”فیس بْک“ کا، جس پر کوئی بات تراش کر پھینک دے تو ”سوشل میڈیا“ کے پروردہ ”سیاسی کارکن“، اس کو ”حقائق“ بنا کر پھیلانے اور دہائی دینے لگ جاتے ہیں، اسی کے پرنٹ نکال کر دستاویزات کی صورت جلسوں میں لہرائے جاتے ہیں، اسی کی بنیاد پر مخالفین کو ”اوئے اوئے“ کہہ کر ”مجرم“ اور ”مجرم اعظم“ پکارا جاتا ہے۔۔۔
جیلے کی بات پر مسکراتے ہوئے چند اخبارات اْس کے سامنے رکھ دیئے اور کہا انہیں پڑھو، ان میں اس ”سموگ“ کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ نیز پنجاب حکومت نے ”سموگ ایمرجنسی“ نافذ کر دی ہے اور تھانوں میں سموگ سنٹر بھی بنانے کا اعلان کر دیا ہے“۔وہ چند لمحے اخبارات ہاتھ میں اٹھائے انہیں دیکھتا رہا، پھر گویا ہوا،”ٹھیک ہے، ان میں بہت کچھ ہے،مگر دھرنے والوں پر جو شیلنگ کی گئی تھی، وہ بھی تو متاثر کن تھی ناں اور اب بھارت کی فضاؤں سے اس زہریلی سموگ کو ہماری سر زمین بالخصوص لاہور پر مسلط کر دیا گیا ہے تو اس کے اثرات کو پولیس تھانہ کیسے ختم کرے گا!“
مَیں نے اْسے کہا ”یار! اب دھرنے اور دھرنے والوں کے ساتھ ساتھ بھارت کی بات بھی چھوڑ دو، پولیس تھانہ اور ایمرجنسی پر بھی نہ تلملاؤ تم اس عذاب سے بچنے کے لئے توبہ کے ساتھ حفظان صحت کے اصولوں کو اپنالو اور طبّی علاج جاری رکھو ورنہ تمہاری فکر مندی سے، نجات کی بجائے اس دھند کے زہریلے اور مضر اثرات مزید بڑھ جائیں گے“۔