موجودہ دور کی برق رفتار ترقی نے بلاشبہ ماضی کی نسبت اب زندگی گزارنے کے لئے زیادہ سے زیادہ آسانیاں فراہم کی ہیں، اس کے باوجود یاسیت/ افسردگی (ڈپریشن) کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک فرد مختلف اقسام کے ذہنی مسائل کا شکار ہے۔
بعض افراد مختلف مسائل اور پریشانیوں کے ہاتھوں اس قدر مایوسی اور نااُمیدی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا، زندگی کی ڈور تھامے رکھیں یا موت کو گلے لگا لیں۔اسی زندگی اور موت کی کشمکش میں کبھی کوئی باپ، تو کبھی کوئی ماں حالات سے تنگ آ کر اپنے لختِ جگروں کو بے رحمی سے موت کے حوالے کر کے خود بھی ابدی نیند سو جاتے ہیں۔
ذہنی امراض کے ماہرین کے مطابق یہ نوبت تب آتی ہے، جب ذہنی صحت متاثر ہو اور یہ عمل ایک لمحے کا حادثہ نہیں، بلکہ آہستہ آہستہ ذہنی صحت متاثر ہونے کا نتیجہ ہے۔
”گیلپ پاکستان“ کے سروے کے مطابق 17 فیصد پاکستانی اپنے خاندانی یا گھریلو مسائل، 15 فیصد آمدنی کی کمی، 14 فیصد بے روزگاری، 13 فیصد اپنی ملازمت، جبکہ 8 فیصد اپنی صحت کو ذہنی تناؤ کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔ماہرینِ ذہنی امراض کا کہنا ہے:”ذہنی صحت کا انحصار عمل اور ردِ عمل کے درمیان توازن قائم رکھنے پر ہے کہ ایک متوازن زندگی ہی خوشگوار زندگی ہوتی ہے اور جب زندگی میں توازن بگڑنے لگتا ہے، تو ذہنی و نفسیاتی مسائل اور اُلجھنیں سَر اُٹھانے لگتی ہیں۔
“ اس کا مطلب ہے کہ اچھی مطمئن زندگی گزارنے کے لئے صرف جسمانی صحت ہی نہیں، ذہنی صحت کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔
ذہنی صحت ہماری زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے، لہٰذا آج ہی سے اپنے معمولاتِ زندگی قناعت کے ساتھ خوش اسلوبی سے انجام دینا شروع کر دیں۔مذہبی فرائض عقیدت سے انجام دیں، مثبت سوچیں اور ایک دوسرے کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔
ایسی مثبت جسمانی سرگرمیاں اختیار کریں، جو جسم اور ذہن دونوں کو متحرک رکھ سکیں۔مانا کہ موجودہ دور سوشل میڈیا کا ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ ضروری اپنی سماجی زندگی پر توجہ دینا ہے، کیونکہ موبائل فون، لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ اور دیگر گیجٹس کے زیادہ استعمال نے خاص طور پر ہمارے بچوں، نوجوانوں کو کھیل کود اور جسمانی سرگرمیوں سے دور کر دیا ہے۔شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعید نے بچوں، نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے بارہا فرمایا:”اے تندرست! مستقبل تیرے لئے۔“