ایک انسان اسی وقت حرکت کر کے کام کاج کرتا اور ہنسی خوشی اپنی ذمے داریاں انجام دیتا ہے جب اس کے تمام سینتیس اڑتیس ارب خلیوں کو توانائی میسر آئے۔ جب ہم خصوصاً کاربوہائیڈریٹس کھاتے ہیں تو اس غذا میں شامل شکر جسم میں پہنچ کر گلوکوز میں بدل جاتی ہے، جو خون کا حصہ بن کر پورے بدن میں حرکت کرتا ہے۔ تب ایک ہارمون، انسولین کی مدد سے یہ گلوکوز خلیوں کے اندر داخل کرتا ہے جسے وہ استعمال کر کے توانائی پاتے ہیں۔
گویا انسولین ہارمون وہ چابی ہے جس سے خلیوں کا دروازہ کھلتا اور گلوکوز اندر داخل ہوتا ہے۔ اگر یہ دروازہ نہ کھلے تو گلوکوز کی عدم موجودگی سے انسان مر بھی سکتا ہے کیونکہ ہمارا دماغ بھی اسی کو استعمال کر کے توانائی پاتا ہے۔ مذید براں خون میں گلوکو ز کی مقدار بڑھ جانے سے بھی سنگین طبی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔ اگر ان کا علاج نہ کیا جائے تو وہ جان لیوا بن جاتی ہیں۔
انسولین ہارمون ہمارے لبلبے کے ایک خصوصی حصے، آیسلیٹز آف لینگرہینز ( islets of Langerhans) کے خلیے بناتے ہیں۔ بعض اوقات کسی طبی خلل کی وجہ سے انسان کا مدافعتی نظام حملہ کر کے ان خلیوں کو تباہ کر دیتا ہے اور وہ انسولین نہیں بنا پاتے۔ تب متاثرہ انسان کو مصنوعی طور پہ یہ ہارمون لینا پڑتا ہے تاکہ زندہ اور صحت مند رہ سکے۔ یہ طبی خلل طبی اصطلاح میں ’’ذیابیطس قسم اول‘‘ کہلاتا ہے۔ جبکہ کھانے پینے کی خراب عادات سے بھی انسولین کے اخراج کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ تب یہ منفی حالت ’’ذیابیطس قسم دوم ‘‘کہلاتی ہے۔
جیسا کہ بتایا گیا، ذیابیطس قسم اول کے مریض کو تاعمر مصنوعی انسولین لینا پڑتی ہے مگر اب سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث اس طبی خلل کے موثر علاج کی سبیل جنم لے چکی۔ سائنس کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو کئی موذی امراض سے نجات دلوا چکی۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں پہلا طریق علاج ٹرانسپلانٹ کی صورت سامنے آیا۔ اس میں ایک صحت مند انسان کے ’آیسلیٹز آف لینگرہینز‘ سے کچھ حصے لے کر مریض کے جسم میں ٹرانسپلانٹ کیے جاتے ہیں۔ پھر مختلف ادویہ کی مدد سے ان آیسلیٹز آف لینگرہینز کی نشوونما کی جاتی ہے۔ یوں وہ پل بڑھ کر انسولین بنانے لگتے ہیں۔ اس طرح مریض کو مصنوعی انسولین سے نجات مل جاتی ہے۔ اس طریق علاج کی بدولت امیر ممالک میں کئی مریض ذیابیطس قسم اول سے نجات پا کر تندرست ہو چکے۔
اس طریق علاج کی قباحت مگر یہ ہے کہ یہ خاصا مہنگا ہے اور ہر کوئی اسے نہیں برت سکتا۔ دوم مریض کو ساری زندگی ایسی ادویہ کھانا پڑتی ہیں جن کے باعث مریض کا مدافعتی نظام ٹرانسپلانٹ کیے گئے آیسلیٹز آف لینگرہینز پر حملہ نہ کر سکے۔ یہ ادویہ بھی خاصی مہنگی ہوتی ہیں۔ یوں مریض اس طریق علاج سے ذیابیطس قسم اول سے چھٹکارا تو پا لیتا ہے مگر اسے نئی پریشانیاں چمٹ جاتی ہیں۔