حسنین نازش:
قسط-19
مورسیہ کے مرکزی کیتھیڈریل کے بعد اگر کوئی عمارت سب سے زیادہ مرجہ خلائق ہے تو وہ دی رائل کسینوکی عمارت ہے.میرا تو خیال تھا کہ اپنے نام کی مناسبت سے یہ بھی کسینو طرز کی کوئی عمارت ہوگی جہاں جوئے بازی کے مقابلے ہوتے ہوں گے ۔کمار باز اکٹھے ہوتے ہوں گے اور ساتھ ہی جام چھلکتے ہوں گے- اگر رائل کا سینو ہے تو میں نے اس کو اردو ترجمہ یہ سمجھا کہ یہ شاید کوئی شاہی جوا خانہ ہے جہاں وقت کے امراء اور سلاطین شہنشاہ لوگ ا کر جوا کھیلتے ہوں گے ۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہ تھا۔
رائل کسینو مورسیہ شہر کی ایک علامتی اور اہم عمارت ہے۔ اس کا منفرد فن تعمیر جدت پسندی اور انتخابی فنکارانہ انداز کو یکجا کرتا ہے- یہ کیتھیڈرل کے قریب کیلے تراپیریا گلی پر شہر کے مرکز میں واقع ہے۔ اس عمارت میں ریئل کیسینو ڈی مرسیا سوسائٹی ہے، جو 11 جون 1847 کو قائم ہوئی۔ یہ ایک نجی ادارہ ہے، جس کے آج کل 1,600 سے زیادہ اراکین ہیں۔
رائل کیسینو ثقافتی سرگرمیوں کا۔مرکز ہے۔ یہاں آرٹ کے نمونوں کی نمائشیں، مذاکرے، کانفرنسیں، بک کلب اور کتب کی رونمائی وغیرہ جیسی۔تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔ رائل کیسینو میں ادارہ جاتی تقریبات اور کاروباری تقریبات بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ تاریخی عمارت کی شان و شوکت کے ساتھ ساتھ یہ جدید دور کے فن تعمیر کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔
یہ عمارت 19ویں صدی کے دوسرے نصف اور اسپین میں 20ویں صدی کے اوائل سے مختلف فنکارانہ طرزوں کا مرکب ہے۔ 1983 میں اسے ایک قومی تاریخی عمارت قرار دیا گیا تھا۔ میں اور عاصم اس عظیم الشان عمارت میں داخل ہوئے جو قرون۔وسطی اور جدید دور کی نمائندہ عمارت ہے۔ عمارت میں داخل ہوتے ہی ایسا محسوس ہوا جیسے ہم شاہی مہمان ہیں۔ درودیوار اس قدر خوشنما اور حسین تھے کہ انہیں چومنے کو جی چاہتا تھا۔ فرش پر ایسی ایسی گلکاریاں کی گئیں تھیں کہ دل چاہتا تھا کہ ننگے پاوں تو کیا سرے سے اس مانند عرش، فرش پر قدم ہی نہ رکھا جائے۔ درویوار اور دروازوں پر کی گئی کشیدہ کاریاں لائق صد ستائش تھیں۔
بلند وبالا دیوان و ایوان اور مرکزی صحن میں فوارے کا التزام ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اگلے ہی لمحے بگل بجیں گے اور بادشاہ معظم اپنی شان وشوکت اور عزوطمطراق کے ساتھ شاہی دیدار کروانا چاہتے ہیں۔ایک ایوان میں داخل ہوئے جہاں پہلے ہی سے آدھ درجن سیاح ایک نیم دائرے کی صورت میں کھڑے تھے۔ ان سب کو ان کے ہسپانوی گائیڈ نے متوجہ کیا ہوا تھا۔ اس کی نگریزی زبان میں ہسپانوی لہجہ خوب چھلک رہا تھا۔ ہم بھی اس مفت کی رہبری کے نیم دائرے کا حصہ بن گئے۔ گائیڈ کہہ رہا تھا:
“9ویں صدی میں قرطبہ کے امیر عبدالرحمٰن دوم کے دور میں مورسیہ میں ایک عیسائی خاندان رہتا تھا۔ اس خاندان کا سربراہ جوآن اس کی بیوی اگوڈا اور ان کے تین بیٹے، امارو، سیلسو اور فیلکس شامل تھے۔
سپین کے موروں کی حکمرانی کے دور میں عیسائیوں پر ظلم اور بربریت کے پہاذ توڑے گئے۔ عیسائیوں اور یہودیوں کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوششیں کی جانے لگیں۔
مسلم حکمرانی کے باوجود یہ خاندان اپنے عیسائی عقیدے کے لیے وقف رہا۔ تاہم، ان کے اسلام قبول کرنے سے انکار اور عیسائیت کے ان کے علی الاعلان پیروی کرنے کے سبب سرکاری اہلکاروں نے اس خاندان کو تنگ کرنا شروع کیا۔ پہلے پہل تو تبلیغ اور سمجھایا بجھایا گیا کہ عیسائیت ترک کر کے حلقہ اسلام میں داخل ہو جائیں لیکن جب ان کی وعظ ونصیحت کام نہ آئی تو اس خاندان کو گرفتار کر کے مورسیہ میں امیر کے گورنر کے سامنے پیش کیاگیا۔ گورنر نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنا عیسائی مذہب ترک کر کے اسلام قبول کر لیں۔ تاہم اس خاندان نے اپنا مزہب ترک کرنے سے انکار کر دیا- یسوع مسیح اور تثلیث کے ساتھ اپنی وفاداری کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ اپنے عیسائی مذہب پر کاربند رہنے کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کا بھی سر عام اعلان کیا۔ ان کی مخالفت سے ناراض ہو کر گورنر نے خاندان کو قتل کرنےکا حکم دیا۔
جوآن، اگوڈا، امارو، سیلسو، اور فیلکس کے شہر کے مرکزی چوک میں سر قلم کر دیے گئے۔ وہ اپنے مسیحی عقیدے پر مضبوطی سے کاربند رہنے کے سبب کے شہید کر دئیے گئے۔مرسیا کے یہ شہداء سپین میں مسلمانوں کی حکومت کے دوران عیسائی مزاحمت اور شہادت کی علامت بن گئے۔
ان کی کہانی صدیوں سے سینہ بہ سینہ منتول ہو رہی ہے جس نے لاتعداد عیسائیوں کو اپنے عقائد پر وفادارانہ طریق سے کاربند رہنے کی ترغیب دی- اس خاندان کی جانی قربانی کے سبب اردگرد کی عیسائی ریاستوں نے مل کر مورسیہ کو موروں کے چنگل سے آزاد کروایا۔
کیتھولک چرچ نے مورسیہ کے ان شہداء اور ان کی قربانیوں اور ان کے عقیدے کے ساتھ لگن کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی قربانی کو یاد رکھتے ہوئے ہر سال 27 اپریل کو ”فیسٹ ڈے” یوم عید منایا جاتا ہے کیونکہ اس خاندان کی قربانیوں کے سبب مورسیہ اور پھرایک ایک کر کے دیگر ہسپانوی علاقے بھی موروں کے تسلط سے آزاد کروائے گئے۔”
ہم دونوں اس گائیڈ کی گفتگو خاموشی سے سنتے رہے جو کے ساری کے ساری یک طرفہ تھی-
گائیڈ کے یک طرفہ دعووں نےمجھے ایک عرب لوک کہانی یاددلادی۔
روایت کچھ یوں ہے کہ کسی عرب علاقے کی ایک بستی کے لوگ جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہی دینے کے لئے مشہور تھے . اس بستی کے ایک مرد و عورت نے خفیہ طور پر نکاح کر لیا. نکاح شریعت کے مطابق تھا۔ نکاح خواں قاضی اور گواہوں کی موجودگی میں ہوا۔ کچھ عرصے بعد میاں بیوی میں ناچاقی ہوگئی اور شوہر نے بیوی کو گھر سے نکال دیا، اور اسے تمام شرعی حقوق سے بھی محروم کر دیا۔ خاتون شہر کے قاضی کے پاس مقدمہ لے کر گئی اور بتایا کہ شوہر نے گھر سے نکال دیا ہے. قاضی نے کہا : تمہارے اس نکاح کی تو کسی کو خبر ہی نہیں . خاتون نے کہا : جناب ہمارا نکاح بالکل شریعت کے عین مطابق ھوا۔ قاضی نے پوچھا : کوئی گواہ ہے؟ جی ۔ قاضی صاحب ۔۔ دو گواہ بھی تھے، ان ہی کی موجودگی میں یہ نکاح ہوا تھا۔
قاضی صاحب نے شوہر اور گواہوں کو طلب کرلیا۔مگر انہوں نے بھری عدالت میں خاتون کو پہچاننے اور نکاح سے صاف انکار کر دیا اور بیک زبان کہا کہ ہم نے تو اج سے پہلے اس خاتون کو کبھی دیکھا تک نہیں۔ قاضی صاحب نے خاتون ،شوہر اور گواہوں کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے خاتون سے پوچھا۔ کیا تمہارے شوہر کے پاس کتّے ہیں؟
خاتون نے کہا؟ ہاں ۔قاضی نے خاتون سے پوچھا ۔۔ کیا اپ کتوں کی گواہی اور ان کے فیصلے کو قبول کرلیں گی؟ خاتون نے کہا ۔۔ جی ۔۔مجھے ان کی گواہی اور فیصلہ قبول ہوگا ۔۔ قاضی نے حکم دیا کہ خاتون کو اس شخص کے گھر لے جایا جائے ۔۔ اگر وہ اس خاتون کو دیکھ کر (اجنبی جان کر) بھونکنے لگیں تو یہ عورت جھوٹی ہے۔ اور اگر وہ کتے خاتون کو دیکھ کر، گھر کا فرد سمجھ کر، خوش ہوں اور اس کا استقبال کریں تو خاتون کا دعویٰ درست اور شوہر اور گواہ جھوٹے ہیں ۔اور یہ خاتون گھر کی مالکن ہے۔
یہ حکم جاری کرتے ہی قاضی اور عدالت میں موجود لوگوں نے شوہر اور گواہوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا، جن کے چہرے جھوٹ پکڑے جانے کے خوف سے پیلے پڑ گئے اور جسم کپکپانے لگے۔ فیصلہ تو ہوچکا تھا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔ قاضی نے سپاہیوں کو حکم جاری کیا ۔۔ گرفتار کرلو، ان جھوٹوں کو اور انہیں کوڑے لگاؤ کہ یہی جھوٹے ہیں۔ اور اپنے مشاہدے میں کہا : “بدترین بستیاں ہیں وہ کہ جن کے باشندوں سے زیادہ ان کے کتے سچے ہیں۔”
مسلمانوں کے ہاں رواداری کی کیسی کیسی سنہری مثالیں پائی جاتی ہیں اس کے ضمن میں دفتر کے دفتر بھرے ہوئے ہیں اور کتابوں کی کتابیں تحریر کی گئی ہے ۔
ہندوستان ہو یا عرب، فارس ہو یا ترکی یا پھر اندلس جہاں جہاں مسلمانوں نے قدم جمائے جہاں وہ اگرچہ اقلیت میں تھے لیکن انہوں نے مقامی آبادی کے ساتھ بہت عمدہ سلوک کیا- انہیں مساوی شہری حقوق دیے ۔انہیں مذہبی ازادی دی اور ساتھ ہی ساتھ ان کو ایسے حالات مہیا کیے تاکہ وہ اپنے مذہب کے تحت زندگی گزار سکیں ۔اس میں محمد بن قاسم سے لے کر محمود غزنوی تک، امیر تیمور سے لے کر سلطان۔محمد فاتح تک اور طارق بن زیاد سے لے کر عبدالرحمن سوئم تک جس بھی مسلمان حکمران کی مثالیں لی جائیں ہمیں یہی یکسانیت نظر آتی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے زیر نگیں غیر مسلموں کو مذہبی تحفظ فراہم کیا ۔البتہ یہ بات حقیقت ہے کہ مسلمانوں سے جب سیاسی طور پر ان سے حکومت چھینی گئی تو مفتوحین کی جانب سے ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ہیں کہ جس سے وہ اپنے ہم مذہب ساتھیوں اور ہم مذہب ریاستوں سے مذہبی ہمدردی حاصل کرنے کے بعد طاقت اور قوت کو یکجا کر کےمسلم حکمرانوں کے۔خلاف برسر پیکار ہوئے اور پھر مسلمانوں کو یہاں سے باہر نکالنے کے لیے ہم کردار ادا کیا ۔کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے مذہب کی بنیاد پرخودکش حملے سپین ہی میں مسلمانوں کو نابود کرنے کے لیے کئے گئے۔
کیتھیڈرل کےبڑے پادری نے اپنےنوجوان اور کم سن طالب علموں کو اسلام، قرآن اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی کھلے عام طورگستاخی کرنے پر اکسایا۔ وہ۔جانتے تھے کہ چونکہ مسلمانوں کے اندر اس گستاخی کی سزا صرف اور صرف سزائے موت ہے اس لیے جب ان پادریوں نے سب سے پہلے تو ہمسایہ عیسائی ریاستوں کو مل کر مسلمانوں کے خلاف متحدہ جنگوں یا صلیبی جنگوں کی دعوت دی لیکن جب یہ منصوبہ کارگر نہ ہوا تو پادریوں نے نوجوان فدائی یا خودکش حملہ آور تیار کیے۔ یہ نوجوان کھلے عام گستاخی کے مرتکب ہوئے ۔ مسلمان حکمران اور اہلکار اس منصوبے سے لاعلم رہے کہ یہ سارا کچھ ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت کیا جا رہا ہے – اس جرم کے مرتکب نوجوانوں کو جب سر عام پھانسی دی گئی یا ان کے سر تن سے جدا کر دیے گئے تو ان ہلاکتوں اور قتال کو وجہ بنا کر پادریوں نے ارد گرد کی عیسائی ریاستوں اور حکمرانوں کو پیغامات بھیجے کہ دیکھیے ہمارے نوجوان بچوں کو تہ تیغ کیا جارہا ہے۔ عیسائیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے تمہاری غیرت عیسائیت کب جاگے گی؟ تم سب اکٹھے ہو کر ان بدیشیوں کو سپین سے کیوں باہر نکال نہیں پھینکتے ۔کہا جاتا ہے کہ یہ چال کامیاب ہوئی- عیسائی ریاستوں نے مل جل کر اتحاد بنایا اور مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو کم کرتے کرتے بالآخرپندرھویں صدی کے اخر تک مسلمانوں کے اقتدار کو سپین سےختم کردیا۔
رائل کسینوکے اس حصے سے نکل کر ہم اگلے ایوان کی طرف چل دئیے۔ یہاں کا ایوان مسلم فن تعمیرکا نمونہ تھا۔ دیواریں اور ایوان میں سجا فرنیچراندلسی مسلم ثقافت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ اسی ایوان کے اندر ہی سے زینہ چڑھ کر ہم اوپر کی لائبریری کی طرف گئے-یاد رہے کہ کسینو میں تین اعلی درجے کے کتب خانے موجود تھے اور ہم بالائی کتب خانے میں گئے- جہاں ہزاروں کتب الماریوں میں مقفل کر کے رکھی گئی تھیں۔ دیکھ کر محسوس ہوا کہ یہاں اب بھی بہت سی ایسی کتب موجود تھیں جو یسپانوی دور کے مسلمانوں کے عہد زریں کی نمائندگی کر رہی تھی ۔ان کتب کو فقط دور سے ہی دیکھا جا سکتا تھا، پڑھا نہیں جا سکتا تھا کیونکہ ان کتب کو الماریوں میں مقفل کر کے صرف نمائش کے طور پر سجایا گیا تھا۔
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
یہ کسینو اگرچہ ڈیڑھ سو برس پہلے بنایا گیا تھا لیکن اج بھی اسے اس انداز سے ترتیب دیا گیا ہے کہ آنے والے سیاح خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی وہ جب اس کسینو میں داخل ہوں تو اپنائیت محسوس کریں ۔ہر مذہب کے افراد کو اس خاص مقام پر اپنے مطلب کی کچھ نہ کچھ شےضرور ملتی ہے ۔
یہ آج کے سرمایہ داران نظام کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ اس میں مخالفوں، اتحادیوں اور مقابل کو سب کو ایک قطار میں ایک ہی جگہ اکٹھا کر دیا گی ہے- اس میں کوئی کلام نہیں کہ اگر ان مسلم نقوش کو مٹا دیا جائے جو سپین کے کونے کونے میں اب بھی موجود ہیں تو یقین مانیے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد سپین میں آنے سے گریز کرے۔مجھ ایسے مسلمان دنیا بھر سے سپین میں اسلامی باقیات کو دیکھتے ہیں ان میں سے اکثریت کا تعداد یقینا سپین میں داخل نہ ہو ۔ کتب خانے کے ایک میز کے گرد بچھی دو کرسیوں ہر ایک عرب ادھیڑ عمر شخص اپنے کم سن بیٹے کو اپنے اجداد کے قصے سنا رہا تھا۔ مجھے جو ٹوٹی ہھوٹی عربی سمجھ میں آئی اس کی رو سے باپ بیٹے کے مابین یہ مکالمہ ہو رہا تھا:
“ابو، مجھے مورسیہ میں اپنے اجداد کے بارے میں بتائیے۔”کم سن بچے نے اپنے والد سے پوچھا جس کا نام عامر تھا۔
اس کی آنکھیں تجسس سے چمک رہی تھیں۔
عامر کے والد عبداللہ مسکرائے اور بولے۔
“ہمارا خاندان کئی نسلوں سے مورسیہ میں مقیم تھا۔ ہم کبھی مور کہلاتے تھےجو سپین کے زیادہ تر حصے پر حکومت کرنے والی مسلم سلطنت کا حصہ تھے۔”
یہ سب کہتے ہوئےعبداللہ کی آنکھیں چمک اٹھیں- وہ پھرگویا ہوا: “ہمارے آباؤ اجداد کسان، تاجر اور علماء تھے۔ انہوں نے مساجد، سکول اور ہسپتال بنائے اور مورسیہ کی ترقی اور ثقافت میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔”
عامر نے اہنے والد کی باتیں غور سے سنیں۔
اس کا تخیل اپنے آباؤ اجداد کو مورسیہ کی ان گلیوں میں چلتے پھرتے ہوئے دیکھ ریا تھا۔اس کے تحت الشعور میں دور کہیں اس کے جدامجدایک ہی مسجد میں نماز ادا کرنے، کھیتوں میں کام کرنےکے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کے ہیچھے شکاری کی مانند دوڑ رہے تھے۔
عبداللہ اپنے بیٹے عامر کو تخیلاتی طور پر مورسیہ شہر کے سفر پر لے گیا-
وہ اپنے بیٹے کو پرانے شہر مورسیہ کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے، قدیم مسجد، الکزار اور سان ایسٹیبن کے چرچ کے پاس سے گزارتا رہا۔ ہر منزل پر، عبداللہ نے اپنے آباؤ اجداد کی جدوجہد اور کامیابیوں، شہر کی ترقی اور خوشحالی میں ان کے تعاون کی کہانیاں بیٹے کو۔سنائیں۔
جیسے جیسے کہانیاں طویل ہوتی رہیں عامر نے مورسیی میں اپنی خاندانی روایات اور جڑوں سے اپنا گہرا تعلق محسوس کیا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے خاندان کی تاریخ صرف واقعات کا ایک سلسلہ نہیں بلکہ ایک زندہ جاوید تاریخ ہے۔
“ابو، مجھے اس خاندان کا حصہ ہونے پر فخر ہے۔”عامر نے جذبات سے لبریز آواز میں کہا۔
عبداللہ مسکرایا اور اپنے بیٹے ے۔ماتھے پر بوسہ دیا۔
ابو، مجھے اس خاندان کا حصہ ہونے پر فخر ہے۔” عامر نے جذبات سے لبریز آواز میں کہا۔
عبداللہ مسکرایا اوربولا
“مجھے بھی اپنے لخت جگر پر فخر ہے۔ میری آنکھوں کے نور کبھی بھی نہ بھولنا کہ ہماری نسلیں کون تھیں، کہاں سے آئیں۔ اور ہاں اپنے آباؤ اجداد کی قربانیوں اور خدمات کو ہمیشہ یاد رکھنا۔”