سلطان عبد الحمید (ثانی) 21 ستمبر 1842ء کو استنبول میں پیدا ہوئے۔وہ 1876ء سے 1909ء تک سلطنت عثمانیہ کے سلطان و خلیفہ کے منصب پر فائز رہے۔تاریخ میں ان کا نام سلطنتِ عثمانیہ کے آخری با اثر اور با اختیار خلیفہ کے طور پر جانا جاتا ہے جو اپنا وژن، خارجہ پالیسی اور نظریات رکھتے تھے۔آپ نے عربی اور فارسی زبان کی تعلیم بھی حاصل کی اور دیگر علوم کے ساتھ ساتھ تصوف کے رموز سے بھی آگاہی حاصل کی۔سلطان عبدالحمید اگست 1876ء میں سلطنت عثمانیہ کے حکمران بنے۔
1870ء کی دہائی میں سلطنتِ عثمانیہ میں لبرل گروپس نے خاصی طاقت پکڑی اور سلطان مراد پنجم جو لبرل نظریات رکھتے تھے، انہوں نے حکومت کی بھاگ ڈور سنبھالی- تاہم ان کی ذہنی حالت میں خرابی کے باعث سلطان عبدالحمید سلطنت عثمانیہ کے حکمران بنے۔یہ وہ دور تھا جب سلطنت عثمانیہ کی طاقت میں بتدریج کمی واقع ہو رہی تھی۔مختلف محاذوں پر روس کی جانب سے مسائل درپیش تھے۔قومیت کے مغربی تصورات مختلف علاقوں میں سرایت کر رہے تھے،نتیجتاً مختلف علاقوں میں بغاوت اور علیحدگی کی تحریکیں چل رہی تھیں اور بالخصوص بالکان میں مرکز کے خلاف بغاوتیں اٹھ رہی تھیں۔ساتھ ساتھ فرانسیسی انقلاب اور مغربی سامراجی طاقتوں کے نوآبادیاتی اثرات پوری مسلم دنیا کو متاثر کر رہے تھے۔سلطان عبدالحمید کے اقتدار سنبھالنے سے قبل سلطنت میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جا رہی تھیں جنہیں تنظیمات (Tanzimat) کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس کے تحت مختلف علاقوں میں قومیت کے نظریات سے نمٹنے کیلئے عثمانوی شناخت پر زور دیا جا رہا تھا۔تاہم اس تمام سلسلہ کے باوجود سلطنت کے اتحاد کو قائم رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔
سلطان عبد الحمید کے حکومت میں آنے کے بعد لبرل گروپس کے زور پر1867ء میں سلطنت میں آئین نافذ کیا گیا تاہم روس کے ساتھ 1877ء-1878ء کی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کو شکست کا سامنا پڑا۔ اس کے باوجود سلطان عبدالحمید نے اپنی افواج کو دوبارہ منظم کیا اور سلطنت کو سہارا دیا۔روس کے ساتھ جنگ کے بعد وہ اس بات پر قائل ہوئے کہ یورپی اتحادی سلطنت پر مشکل وقت میں کام نہیں آئیں گے ۔چنانچہ انہوں نے نئی قائم کردہ اسمبلی اور آئین تحلیل کر دیئے۔سلطان نے تنظیمات کے سلسلہ کو منقطع کیا اور سلطنت میں عثمانوی کی بجائے اولین شناخت کے طور پر اسلام پر زور دیا۔سُلطان نے اِس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ مغرب کو ترکی سے کم ہی خار ہے۔ مغربی طاقتوں کا اصل ہدف ’’اسلامی شناخت کا طرزِ حکومت‘‘ہے ۔ سلطان عبدالحمید اس بات پر قائل ہو گئے تھے کہ مسلمانوں کے اتحاد اور مرکز کو قائم رکھنے کیلئے مسلمانوں کو نظریاتی طور پر مسلم شناخت کی جانب قائل کرنا ہو گا اور یہی سلطنت کی طاقت کا بھی راز ہے۔تاہم انہوں نے تمام تر جدت کی پالیسیز کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ کئی نئے پراجیکٹ بھی شروع کئے مگر اس مرتبہ ان کیلئے رہنما اصول اسلام سے اخذ کئے جا رہے تھے ۔
سلطان عبدالحمید کا مسلم اتحادکا نظریہ فقط سلطنت عثمانیہ تک محدود نہ تھا بلکہ وہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے مابین اتحاد و یگانگی کی فضا دیکھنا چاہتے تھے۔انہوں نے اس ضمن میں مختلف مسلم علاقوں میں اپنے وفود بھیجے۔اسی طرح چین اور روس کے مسلم علاقوں میں بھی انہوں نے وفود بھیجے۔چین میں انور پاشا کی قیادت میں بھیجے گئے وفد کو بہت پذیرائی ملی اور 1908ء میں بیجنگ حمیدیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا جس پر سلطنت عثمانیہ کا جھنڈا لہرایا گیا جو چینی مسلمانوں کی جانب سے خلیفہ کے لئے عزت اور احترام کی علامت تھا۔حتیٰ کہ برٹش انڈیا اور چین میں جمعہ کے خطبات میں انہیں خلیفہ تسلیم کیا جاتا تھا۔
سلطان عبدالحمید نے جرمنی کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دیا۔انہوں نے اُس دور کے تقاضوں کے مطابق نظامِ سلطنت میں مختلف اصلاحات کیں جو ان کی جدت پسندی کو ظاہر کرتا ہے۔انہوں نے نظامِ دفاع میں بھی اصلاحات کیں۔سلطنت میں مختلف کلاک ٹاورز قائم کئے گئے جن کا مقصد ایک جانب حکومتی رِٹ کو برقرار رکھنا تھا تو دوسری جانب عوام میں وقت کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا انہوں نے سلطنت کی مضبوطی کیلئے ٹیلی گراف کا استعمال کیا اور ان کے دور میں ٹیلی گراف لائینز کی لمبائی پہلے سے موجود کے مقابلے میں دوگنی ہو گئی تھی۔
سلطان عبد الحمید نے سلطنت میں جاری نظام تعلیم میں اصلاحات کیں اور فقہ، تفسیر، اخلاقیات اور اسلامی تاریخ جیسے موضوعات پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔انہوں نے کئی دینی مدارس بھی قائم کئے اور ان کی خصوصی نگرانی کی۔سلطان عبد الحمید نے حرمین شریفین پر خصوصی توجہ دی اور وہاں ہسپتال، انفراسٹرکچر اور بیرکس بنانے کا کام ہوا۔اسی دوران خانہ کعبہ اور مسجد حرام میں پانی کا جدید نظام لایا گیا۔
انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں جرمنی کے تعاون سے سلطنتِ عثمانیہ میں کچھ ریل کے منصوبے مکمل کئے گئے اور 1897ء میں سلطنت عثمانیہ کے یونان کیخلاف جنگ جیتنے میں ان ٹریکس نے اہم کردار ادا کیا۔دیگر چھوٹے ٹریکس کے علاوہ سلطان عبدالحمید کی جانب سے ریل کے دو بہت اہم منصوبے شروع کئے گئے جو تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔دمشق سے مدینہ منورہ کی جانب ریلوے لائن بچھانے کا کام شروع کیا گیا-یہ ٹریک شام، فلسطین، عرب کے صحرا سے ہوتا ہوا مدینہ منورہ تک آنا تھا جس کیلئے بہت بڑی رقم درکار تھی۔
سلطنت کے مالی حالات اس ٹریک کی تعمیر کیلئے کافی نہ تھے چنانچہ اس میں رضا کارانہ طور پر چندہ جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔سلطان نے سب سے پہلے اس مقصد کیلئے اپنے ذاتی مال سے حصہ ڈالا اور اسی طرح کئی وزراء کی جانب سے بھی اس میں حصہ ڈالا گیا۔اس کے بعد عوامی سطح پر اور سلطنت عثمانیہ کے علاوہ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کی جانب سے اس میں حصہ لیا گیا۔یہ ریلوے مسلمانوں کے فنڈز سے تعمیر کی گئی اور مسلمان مزدور ہی اس کا حصہ بنے اور یہ واحد ریلوے ٹریک تھا جس کا منصوبہ، تعمیر، ملکیت اور نظم و نسق سلطنت کی جانب سے کیا گیا تھا۔برصغیر کے مسلمانوں نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایران کے بادشاہ کی جانب سے بھی اس میں حصہ پیش کیا گیا۔
ان تمام کاوشوں کے باعث 1908ء میں ریلوے کی تکمیل ہوئی اور پہلے سال 250,000 مسافروں نے اس کے ذریعے سفر کیا۔ جرمنی کے شہر برلن تا بغداد1600 کلومیٹر طویل بغداد ریلوے کے نام سے ریل ٹریک بچھانے کا منصوبہ بھی سلطان عبدالحمید کی دور اندیشی اور ترقی پسندانہ پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
سلطان عبد الحمید ثانی کا نام تاریخ میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اگست 1897ء میں بیسل، سویزرلینڈ میں پہلی عالمی صہیونی کانگریس کے موقع پر تھیوڈر ہرزل نے عالمی صہیونی تحریک (World Zionist Organization) کی بنیاد رکھی جس کے مقاصد میں اولین فلسطین میں یہودیوں کو بسانا تھا۔سلطان نے واضح طور پر فلسطین کا علاقہ صہیونیوں کو دینے سے انکار کیا اور ساتھ ہی ساتھ وہاں اس خطرے کے پیش نظر کہ یہودی اپنے قدم جمانے شروع کر دیں گے، فلسطین میں صہیونیوں کے زمین خریدنے پر بھی پابندی لگا دی۔
سلطان عبد الحمید مضبوط عقیدہ رکھنے والے مسلمان تھے جو پنجگانہ نماز پڑھتے تھے اور باقاعدگی سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے-مزید برآںسلطان عبدالحمید تصوف سے لگاؤ رکھتے تھےاور کم از کم دو صوفی سلاسل سے وابستہ تھے، شاذلیہ اور قادریہ‘‘۔
1909ء میں سلطنت میں عدم استحکام اور حالات خراب ہونے پر خلیفہ سلطان عبدالحمید کو سبکدوش ہونا پڑا۔ ان کے بھائی محمد راشد کو ینگ ترکس کی جانب سے نیا سلطان منتخب کیا گیا۔
یہ درست ہے کہ سلطان عبدالحمید بحیثیت مجموعی سلطنت کے زوال کو نہ روک سکے تاہم انہوں نے اس کی گرتی دیواروں کو ایک بار پھر سے مضبوط کیا اور سامراجی طاقتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوئے ، یہ سُلطان عبد الحمید ثانی ہی کی کاوشوں کا ثمر تھا کہ سخت ترین سیکولر انقلاب کے باوجود ترکی کی اسلامی شناخت کو ختم نہیں کیا جا سکا ۔مغربی قومیت کے اثرات کے باعث آنے والے سالوں میں سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد نہ صرف ملت اسلامیہ تقسیم در تقسیم ہوئی بلکہ آج تک دنیا میں حقیقی آزادی و حریت حاصل نہیں کر پائی۔
سلطان عبدالحمید ثانی نے 10 فروری 1918ء کو 75 سال کی عمر میں ترکی میں وفات پائی،ان کا مزار استنبول میں ہے-