عالمی ادارہ صحت نے مصر کو ملیریا فری قرار دے دیا

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق مصر نے اپنی ہی تاریخ جتنی قدیم ترین بیماری کو مسلسل 100 سال کی جدوجہد کے بعد شکست دی۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق مصر میں گزشتہ تین سال کے دوران ملیریا کا کوئی نیا کیس رپورٹ نہیں ہوا اور نہ ہی مقامی سطح پر ملیریا کی افزائش کے شواہد ملے، جس بعد ملک کو ملیریا فری قرار دیا گیا۔

عالمی ادارہ صحت کے حکام نے مصری حکام کو ملیریا فری کا سرٹیفکیٹ بھی فراہم کردیا جبکہ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے مصری حکومت کی کاوشوں کی تعریف بھی کی۔مصر کا شمار براعظم افریقہ کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں ماضی میں ملیریا کے کیسز بہت زیادہ رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق مصر کی تاریخ میں سب سے زیادہ ملیریا کے کیس دوسری عالمی جنگ کے دوران 1942 میں ریکارڈ کیے گئے، جس کے بعد 1960 میں ڈیمز کی تعمیر کے دوران بھی وہاں ملیریا کے کیسز میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کئی سال کی کوششوں کے بعد 2001 میں مصری حکومت نے گھروں اور رہائشی علاقوں کے قریب چاول سمیت دوسری اجناس کی کاشت پر پابندی لگائی اور پانی کے نظام کی مچھروں کے حوالے سے بہتر مانیٹرنگ کی، جس سے ملیریا کے خاتمے میں مدد ملی۔
مصر میں گزشتہ تین سال سے مقامی سطح پر ملیریا کی افزائش نہ ہونے اور نیا کیس رپورٹ نہ ہونے پر اسے ملیریا فری ملک قرار دیا گیا۔

مصر سے قبل عالمی ادارہ صحت 43 ممالک، ریاستوں اور جزائر کو ملیریا فری قرار دے چکا ہے۔مصر سے قبل بھی عالمی ادارہ صحت متعدد مشرق وسطی ممالک کو ملیریا فری قرار دے چکا ہے۔

ملیریا سے پاک ہونے والے ممالک میں مشرق وسطیٰ کے متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، قطر، لبنان، بحرین، اردن، کویت، لبیا، مراکش اور تیونس شامل ہیں۔
اسی طرح جنوبی ایشیائی ممالک میں سے صرف مالدیپ اور سری لنکا ایسے ممالک ہیں، جنہیں عالمی ادارہ صحت ملیریا فری قرار دے چکا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ملیریا فری قرار دیے گئے بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں ملیریا خاص اقدامات یا انتظامات کیے بغیر ہی ازخود ختم ہوگیا۔
عالمی ادارہ صحت 1953 سے اب تک مصر سمیت دنیا کے تمام خطوں کے 44 سے زائد ممالک، ریاستوں اور علاقوں کو ملیریا سے پاک قرار دے چکا ہے۔

ملیریا خصوصی مچھروں کے کاٹنے کی وجہ سے ہوتا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں نہ صرف ملیریا کے زیادہ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں بلکہ یہاں اموات بھی زیادہ ہوتی ہیں۔

کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں