تحر یر سعیدہ نصیر
عورت کی آزادی ایک ایسا موضوع ہے جو ہر دور میں زیر بحث رہا ہے۔ مختلف معاشروں اور مذاہب نے عورت کے مقام اور آزادی کے حوالے سے مختلف تصورات پیش کیے ہیں، لیکن اسلام نے اس حوالے سے ایک متوازن اور جامع نظریہ فراہم کیا ہے۔ اسلام نے عورت کو ایک مکمل انسان کے طور پر تسلیم کیا اور اسے زندگی کے ہر شعبے میں آزادی اور عزت بخشی، جس کے تحت وہ اپنی زندگی کو بہتر طور پر گزار سکتی ہے۔
اسلام سے قبل دنیا کے مختلف معاشروں میں عورت کو کمتر اور معاشرتی طور پر بے وقعت سمجھا جاتا تھا۔ اسے جائیداد یا غلامی کا حصہ سمجھا جاتا تھا، اور اس کے حقوق نہایت محدود تھے۔ عرب معاشرے میں بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینا عام تھا، اور عورت کو وراثت یا تعلیم کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ لیکن اسلام نے اس فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور عورت کو وہ مقام دیا جو اس کا حق تھا۔
قرآن مجید نے مرد اور عورت کو برابر تسلیم کیا اور دونوں کے لیے یکساں حقوق اور ذمہ داریاں مقرر کیں۔ قرآن کہتا ہے:
“جو نیک عمل کریں گے، مرد ہوں یا عورت، اور وہ ایمان والے ہوں گے تو وہ جنت میں داخل ہوں گے۔” (النساء: 124)
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں مرد و عورت کے درمیان کسی قسم کی تفریق نہیں کی گئی۔
تعلیم کے معاملے میں بھی اسلام نے عورت کو مکمل آزادی دی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ یہ تعلیم ہی ہے جو انسان کو شعور دیتی ہے اور اسے معاشرے میں اپنا مقام بنانے کے قابل بناتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں کئی ایسی خواتین کی مثالیں ملتی ہیں جنہوں نے علم و حکمت کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ کا علم اور ان کی فقاہت اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام عورت کی علمی قابلیت کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔
اسلام نے عورت کو معاشرتی زندگی میں بھی آزادی دی ہے۔ وہ اپنے معاملات میں آزاد ہے اور اپنی مرضی سے فیصلے کر سکتی ہے۔ تجارت کرنے، ملازمت کرنے، یا سماجی معاملات میں حصہ لینے کی اجازت اسلام نے عورت کو دی ہے۔ حضرت خدیجہؓ کی زندگی اس بات کی مثال ہے کہ ایک عورت کس طرح کامیاب تاجرہ بن سکتی ہے اور اپنی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں استعمال کر سکتی ہے۔
پردہ اور حجاب کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو بعض اوقات عورت کی آزادی کے خلاف سمجھا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پردہ عورت کے تحفظ اور عزت کی علامت ہے۔ قرآن کہتا ہے:
“اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کریں۔” (الاحزاب: 59)
پردہ عورت کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ معاشرے میں بلا خوف و خطر اپنی ذمہ داریاں ادا کرے اور اپنے مقام کو محفوظ رکھے۔
اسلام نے عورت کو خاندانی زندگی میں بھی مکمل آزادی دی ہے۔ اسے شادی کے معاملے میں اپنی مرضی کا اختیار حاصل ہے اور کسی بھی زبردستی یا جبر کے خلاف تحفظ دیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر وہ ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرے تو طلاق یا خلع لینے کا حق بھی اسے دیا گیا ہے۔ اسلام نے ماں کے طور پر عورت کو بلند مقام عطا کیا اور اس کی خدمت کو جنت کی کنجی قرار دیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔”
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں عورت کو خاندانی زندگی میں کس قدر عزت و احترام دیا گیا ہے۔
اسلام نے عورت کو معاشی معاملات میں بھی آزادی دی ہے۔ اسے وراثت میں حصہ دیا گیا، اپنی کمائی پر مکمل اختیار دیا گیا، اور جائیداد رکھنے کی اجازت دی گئی۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ عورت اپنی مالی ضروریات کے لیے کسی پر انحصار کرنے کی پابند نہیں۔ اگرچہ شوہر یا خاندان کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے، عورت کو بھی اپنی مرضی سے مالی طور پر خودمختار ہونے کا حق حاصل ہے۔
عورت کی آزادی کے حوالے سے اسلام کا نقطہ نظر نہایت متوازن ہے۔ یہ آزادی نہ تو مغربی دنیا کی طرح بے راہ روی پر مبنی ہے اور نہ ہی مشرقی روایات کی طرح قدامت پسندی پر مشتمل۔ اسلام نے عورت کو وہ تمام حقوق دیے ہیں جو اس کی عزت، وقار، اور روحانی ترقی کے لیے ضروری ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے اخلاقی اور معاشرتی حدود میں بھی رکھا ہے تاکہ معاشرے کا توازن برقرار رہے۔
آج کے دور میں عورت کی آزادی کے حوالے سے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ مغربی دنیا میں آزادی کا مطلب اکثر عورت کو خاندانی اور سماجی ذمہ داریوں سے آزاد کر دینا سمجھا جاتا ہے، جبکہ بعض مشرقی معاشروں میں عورت کو روایات کے نام پر دبایا جاتا ہے۔ اسلام ان دونوں انتہاؤں سے مختلف ایک معتدل راستہ فراہم کرتا ہے، جو عورت کو نہ صرف عزت و وقار دیتا ہے بلکہ اس کے تحفظ اور روحانی ترقی کا بھی ضامن ہے۔
اسلامی تاریخ میں ایسی بے شمار خواتین کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنی آزادی کو مثبت انداز میں استعمال کیا اور معاشرتی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ صحابیات نے جنگوں میں حصہ لیا، علمی میدان میں خدمات انجام دیں، اور اپنی بصیرت اور قیادت سے امت کی رہنمائی کی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام نے عورت کو ایک مکمل انسان کے طور پر تسلیم کیا اور اسے زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کے مواقع فراہم کیے۔
عورت کی آزادی اسلام کی عطا کردہ نعمت ہے، جو اسے نہ صرف دنیاوی زندگی میں کامیابی عطا کرتی ہے بلکہ آخرت میں بھی اس کے درجات بلند کرتی ہے۔ اسلام عورت کو وہ تمام حقوق اور مواقع فراہم کرتا ہے جن کی اسے ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے ان حدود اور اصولوں کی پابندی کا بھی درس دیتا ہے جو معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہیں۔ یہ توازن ہی اسلام کے نظامِ حیات کی خوبصورتی اور حکمت ہے، جو عورت کو ایک مکمل انسان اور معاشرے کا اہم ستون بناتا ہے۔
اسلام کا تصورِ آزادی عورت کے لیے تحفظ، عزت، اور ترقی کا ذریعہ ہے۔ یہ آزادی عورت کو اپنی زندگی کو بامقصد بنانے اور معاشرے کی بھلائی میں حصہ ڈالنے کا موقع فراہم کرتی ہے، جبکہ اس کے حقوق، وقار، اور روحانی ترقی کا بھی ضامن بنتی ہے۔ اس طرح اسلام عورت کی آزادی کو نہ صرف اس کی اپنی شخصیت کی تکمیل کا ذریعہ بناتا ہے بلکہ ایک مضبوط اور خوشحال معاشرے کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔