حسنین نازش:
قسط-15
قصہ کچھ یوں ہے کہ ٹائم ٹریولنگ گزشتہ چند ماہ سے میرا موضوع تحقیق رہا ہے۔ اسی مضمون کے حوالے سے ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھیں کہ کب کوئی شخص، جہاز، ٹرین یا بس ٹائم ٹریول کر کے کسی دوسرے زمانے میں آن پہنچی۔ اسی جستجو کے دوران ایک ڈاکومنٹری دیکھی جسے دیکھ سن کر میں ورطہءِ حیرت میں پڑ گیا کہ اس موضوع پر اولین کام ابن عربی نے کیا تھا۔
اللہ عز وجل کی دنیا بے حد وسیع و عریض ہے۔ اس کی وسعت کا ہم اندازہ اس طرح بھی لگا سکتے ہیں کہ اگر کوئی سائنس دان خلا میں جانے کے لیے کوئی سپیس کرافٹ بنائے جو تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرے تو تب بھی ہمیں اپنی ہی کہکشاں سے باہر نکلنے کے لیے ایک لاکھ سال تک کا وقت درکار ہوگا۔ مغربی تہذیب کا یہ عقیدہ ہے کہ ایک جسم ٹائم ٹریولنگ کے سبب بیک وقت بہت سے مقامات پر موجود ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں سائنس دان اور سپیس ایجنسیز لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کر کے خلا میں نت نئی دریافتیں کر رہے ہیں۔ جدید ترین سپیس کرافٹ ہونے کے باوجود ہم وہاں نہیں پہنچ سکتے۔سائنس کا یہ ماننا ہے کہ اگر وقت اور سپیس (زمان و مکان) آپس میں مل جائیں تو وقت ٹھہر جاتا ہے۔انسان ٹائم ٹریول کے ذریعے کسی بھی سیارے پر سیکنڈز کی رفتار سے پہنچ جائے گا۔
سائنسدانوں کی ریسرچ کے مطابق ہمارے خلا میں بہت سے شارٹ کٹ راستے موجود ہیں۔ ان مختصر ترین راستوں سے لاکھوں کھربوں لائٹ ایئر کا فاصلہ چند سیکنڈ میں طے ہو سکتا ہے۔ سائنس دان ان راستوں کو”وارم ہول“ کا نام دیتے ہیں۔ان راستوں کو اگر کھولنا ہو تو اس کے لیے گریویٹیشنل فورس (کشش ثقل) کی ضرورت درکار ہوگی۔ اگر اسلامی رو سے دیکھا جائے تو ان وارم ہولز کو روحانیت کی تاریخ میں جس صوفی بزرگ نے سب سے پہلے کھولا وہ ابن عربی ہی تھے۔ انہوں نے مراقبے کیے اور دوسرے سیارے پر جا پہنچے۔
ابن العربی کے کہنے کے مطابق وہ روحانیت کے ذریعے ایسی دنیاؤں تک پہنچے ہیں جو ہماری زمینی دنیا جیسی ہی تھی۔انہوں نے روحانیت کی دنیا میں ایک مقام ایسا دیکھا جہاں ہر طرف خوشبو کی خوشبو تھی۔ وہاں پر چلنے پھرنے والی مخلوق کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ ایک عام انسانی آنکھ اسے دیکھ نہیں سکتی تھی۔
الفتوحات المکیہ میں آج سے 850 سال پہلے ابن عربی نے ٹائم ڈفرنس کے اس تصور کو آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیوٹی کے تصور سے 750 سال پہلے پیش کیا تھا۔ ابن العربی نے دوسری دنیا میں جو مخلوق دیکھی وہ ہم عام انسانوں جیسی بالکل نہیں تھی۔ ابن عربی کو سب سے خوبصورت سیارہ وہ لگا جو زعفران سے بنا ہوا تھا۔ وہاں کے لوگوں کا رنگ دودھ کی طرح سفید تھا۔وہاں کی زمین نور کی طرح چمکتی تھی۔ وہاں ہر طرف میوے اور پھلوں کی کثرت تھی۔ اس زمین کی ایک خوبی یہ تھی کہ اگر وہاں سے کوئی پھل توڑا جاتا تو وہ فور ی طور پر اسی جگہ سے نیا پھل نکل آتا تھا۔اس سیّارے کے لوگوں میں عمل تولید کا طریقہ ایسا نہیں تھا جیسا انسانوں اور جانوروں میں ہوتا ہے بلکہ وہ لوگ پودوں کی طرح زمین سے اُگتے تھے۔وہاں کے لوگ نہ پانی میں ڈوبتے تھے نہ آگ انہیں کوئی نقصان پہنچاتی تھی۔ یہ مخلوق جس سیّارے میں زندگی گزار رہی تھی ابن عربی نے ہی اس سیّارے کو مریخ کا نام دیا۔
ابن عربی کے انہوں نے مریخ پر ایک نشان چھوڑا تھا۔ ان کے قول کے مطابق ”آنے والے وقتوں میں لوگ جب نئی نئی دنیا دریافت کریں گے تو تب لوگ مریخ پر بھی پہنچیں گے تو وہ مریخ پر میرے اس نشان کو دیکھیں گے تو لوگ جان لیں گے کہ میرا یہ سفر حقیقت پر مبنی تھا۔“
یہ عین ممکن ہے کہ ابن عربی نے خلا میں کسی ”وارم ہول“ کا راستہ کھول دیا ہو۔ اسی وارم ہول کے ذریعے وہ دوسری دنیا تک پہنچے ہوں۔آج یورپ اور بطور خاص برطانیہ میں آکسفورڈ، اس کے علاوہ آسٹریلیا، کیسٹرو ویلی کیلیفورنیا امریکہ اور خاص طور پرمورسیہ سپین میں ”دی محی الدین ابن عربی سوسائٹی“ ابن العربی کی کتب پر تحقیق کر کے ایسے ایسے سوالات کے جوابات ڈھونڈ رہے ہیں جن کے جوابات ڈھونڈنے میں سائنس اب بھی بے بس ہے۔اس لیے میں اپنے پسندیدہ موضوع کے جدید دنیا کے بانی کی جنم بھومی کا شاہد بننا چاہتا تھا۔
ٹرین نے ویلنشیا سے پلٹ کر مورسیہ کی جانب اپنا سفر جاری رکھا۔دورانِ سفر دیکھا کہ کھیت کھلیان دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ گندم کی فصل کہیں تو کٹ چکی تھی تو کہیں کاٹی جا رہی تھی۔ البتہ انگور کی فصل لہلہا رہی تھی اور زیتون و بادام کے باغات ماحول میں اپنا سکہ جمائے ہوئے تھے۔
جب ٹرین مورسیہ کے قریب پہاڑی علاقے سے گزری تو پہاڑوں میں بھی سیڑھی دار طرز کے باغ اور کھیتوں کے وسیع سلسلے نظر آئے۔ اہل سپین نے صدیوں سے پہاڑوں میں فصلیں اُگانے میں مہارت حاصل کر رکھی ہے۔
وقت مقررہ پر ٹرین مورسیہ کے مرکزی ریلوے سٹیشن پر ٹھہری۔میں ڈبے سے باہر نکلا تو اپنے سامنے اپنے کزن عاصم شکور کو کھڑے پایا۔ ایک مسافر سے درخواست کر کے عاصم نے سالوں بعد معانقہ کرنے کی ویڈیو اپنے موبائل کیمرے میں محفوظ کر لی۔ اس قدر گرم جوشی سے ملاکہ سالوں کے گلے شکوے بھی ہوتے تو ایک لمحے میں دور ہو جاتے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ میں عاصم کا واحد دوست اور رشتہ دار تھا جو اس سے ملنے مورسیہ آیا تھا۔
سٹیشن سے نکلتے ہی ٹیکسی کے ذریعے ہم عاصم کے اپارٹمنٹ کی جانب روانہ ہوگئے جو مورسیہ کی ایک میونسپلٹی سیوتی میں تھا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔