جمیل الدین عالی ایک نامور شاعر، نثر نگار، کالم نگار، سیاح، ملی نغمہ نگار، سیاست داں، ماہر لسانیات، ماہر مستقبلیات، دانشور اور سماجی راہنما تھے۔
1926ء میں وہ نواب امیر الدین احمد خان آف لوہارو کے ہاں دہلی میں پیدا ہوئے۔ 1951ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور انکم ٹیکس کے محکمے میں افسر ہو گئے۔ 1962ء میں انجمن ترقی اردو کے اعزازی سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا۔ 1972ء میں ایل ایل بی کیا۔ وفاقی وزارت فنانس میں نامور معاشیات دان ڈاکٹر محبوب الحق کے ساتھ کام کیا۔ سابق صدر غلام اسحق خان کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ نیشنل بنک سے وابستہ ہوئے تو وائس پریذیڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ رائٹرز گلڈ کا ادارہ قائم کیا۔ اردو ڈکشنری بورڈ کے تین برس تک چیئرمین رہے۔
والد ادب شناس تھے جبکہ دادا نواب علاؤ الدین خان آف لوہارو سٹیٹ مرزا غالب کے دوست بھی تھے اور شاگرد بھی۔ والدہ جمیلہ بیگم کا شجرہ خواجہ میر درد سے ملتا تھا۔ایسے میں عالی صاحب کا ادبی میلان فطری تھا.
ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ 1957ء میں سامنے آیا، ملی نغمات پر مشتمل مجموعہ ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ اور ’’لا حاصل‘‘ 1974ء میں شائع ہوا۔ آخری شعری مجموعہ ’’اے مرے دشتِ سخن‘‘ تھا۔ خاکہ نگاری کے حوالے سے ایک کتاب ’’بس اک گوشۂ بساط‘‘ لکھی، چندسفر نامے بھی لکھے، دیگر کتب میں ’’نئی کرن‘‘، ’’شنگھائی کی عورتیں‘‘ اور ’’ایشین ڈرامے‘‘ شامل ہیں۔عمر کے آخری برسوں میں ’’انسان‘‘ کے عنوان سے ایک طویل نظم کہی جو 10ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ 1967ء سے 2010ء تک بغیر کسی وقفے کے اخبار کیلئے کالم لکھا۔
ان کے لکھے مقبول ترین ملی نغموں میں اے وطن کے سجیلے جوانو،ہم تا با ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں ، پاکستان کا غیر سرکاری قومی ترانہ ’جیوے جیوے پاکستان ،اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا شامل ہیں۔
اتنی خوبیاں ایک شخصیت میں یکجا نظر نہیں آتیں مگر عالی جی کی خوش نصیبی یہ کہ مردانہ وجاہت، ترنم کے بادشاہ، گفتگو کے فن میں یکتا، قلم کاری میں نئی شان، شاعری میں اعلی مقام، نثر نگاری میں باکمال، صحافت میں شائستگی و بے باکی، سیاست میں اُصول پسند، اُردو کے جاں فشار، ملی نغموں کے سرتاج، اعلی منتظم، شفیق باپ اور ہر مستحق اور طلبگار کے مدد گار اتنی خوبیوں سے نوازے گئے تھے کہ وہ ہر طبقے میں ہر دل عزیزتھے، سب کے لئے محترم اور ہر ایک کے لئے عالی جی تھے۔
دنیا میرے آگے‘ ، ’تماشا میرے آگے‘، ’آئس لینڈ‘ نام سے تین سفر نامے لکھے۔انہوں نے سفر نامے کو عشق و محبت اور پری چہرہ دوشیزاؤں کے جھرمٹ سے نکال کر نادیدہ گلی کوچوں، بازاروں، چوباروں میں لاکھڑا کیا جو جیسا ہے، کیسا ہے اس سے ملوا دیا جہاں گئے اس کی تاریخ جغرافیہ، سیاست، معیشت اور معاشرت سے تعارف کرادیا کہ قاری خود کوسیاح سمجھتا رہا۔
عالی جی کی خود اعتمادی اور اپنے اطراف پر گہری نظر رکھنے کی بیشتر نمایاں مثالیں موجود ہیں ان میں دنیا کے بڑے اور معروف سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ سے ملاقات اور کچھ وقت ان کے ساتھ گزارنا بڑا اعزاز ہے۔ اس کے علاوہ امریکی، یورپی اور عرب دنیا کی بڑی سیاسی، ادبی، علمی اور سماجی شخصیات سے ملاقاتیں اور ان کا احوال عالی جی کی تحریروں میں نمایاں ہے۔ عالی جی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ مطالعہ سے بہت شغف رکھتے تھے اور حالاتِ حاضرہ پر پوری نظر رکھتے تھے۔ عالی جی ایک دور میں رکن سینٹ بھی رہے۔
ان کی زندگی ہی میں انہیں بیشتر اعلی تمغات اور اعزازات سے نوازا گیا۔ ادبی محاذ پر وہ چھ سات عشروں تک چھائے رہے۔پاکستانی حکومتوں نے بھی عالی جی کی ادبی و انتظامی خدمات کو سراہا اور پرائیڈ آف پرفارمنس، ستارہِ امتیاز، ہلالِ امتیاز اور کمالِ فن ایوارڈ سے نوازا۔ کراچی یونیورسٹی نے انہیں ڈی لٹ کی ڈگری عطا کی۔انہیں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، سعودیہ، بھارت، عرب امارات اور دیگرممالک میں بھی زبردست پذیرائی ملتی رہی اور وہ اعزازات سمیٹتے رہے۔
ان کا انتقال 23 نومبر، 2015ء کو کراچی میں ہوا۔عالی جی کی وفات سے اردو تہذیب کا ایک کلاسیکی باب مکمل ہوا۔