لاہور میں درختوں کا گرین رنگ بنانے کا فیصلہ

لاہور کو اسموگ کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے شہر کے اطراف میں درختوں کا گرین رنگ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، گزشتہ دو دہائیوں میں لاہور کے قابل کاشت رقبے میں نمایاں کمی، گرین ایریا ایک فیصد سے بھی کم رہ گیا۔
اربن یونٹ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں لاہور کے قابل کاشت رقبہ 1161 مربع کلومیٹر تھا جو کم ہوکر 873 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے، گزشتہ 20 برسوں میں تعمیراتی رقبے میں اضافہ ہوا ہے۔ سال 2000 میں لاہور کا تعمیراتی رقبہ 147 مربع کلومیٹر تھا جو 2020 میں 759 مربع کلومیٹر تک پہنچ گیا اور اب اس میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔
ہاو¿سنگ سوسائٹیوں، چھوٹے شہروں اور دیہات سے لوگوں کی لاہور کی طرف ہجرت کی وجہ سے رہائشی اور تعمیراتی رقبہ بڑھتا جبکہ زرعی رقبہ اور گرین ایریا کم ہوتا جا رہا ہے۔ دو دہائیوں میں لاہور کے زرعی رقبے میں 287 مربع کلومیٹر کمی آئی ہے جبکہ گرین ایریا جو سال 2001 میں 1550 ہیکٹر تھا وہ 2022 میں کم ہوکر 1298 رہ گیا یعنی گرین ایریا میں بھی 252 ہیکٹر کمی آئی ہے۔ لاہور میں گرین ایریا مجموعی رقبے کے ایک فیصد سے بھی کم ہے جس کو بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
لاہور گرین ماسٹر پلان کے تحت لاہور گرد درختوں کی دیوار بنائی جائے گی جسے گرین رنگ کا نام دیا گیا ہے۔ گرین رنگ میں لگائے جانے والے درختوں کی جیوٹیگنگ بھی کی جائیگی۔ اس کے علاوہ، صنعتی علاقوں میں شجرکاری بڑھائی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے تعلیمی اداروں میں طلبا پر مشتمل گرین فورس بنانے کی بھی ہدایت کی ہے۔ اسموگ کے تین ماہ کے دوران طلبا اور تعلیمی اداروں کو گرین پراجیکٹس میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
دوسری طرف، ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے مطابق فضائی آلودگی پھیلانے پر دو فیکٹریاں سیل کرکے مالکان کو دو لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا ہے جبکہ تین بھٹے اور پلاسٹک پگھلانے والے چار پلانٹ بھی مسمار کیے گئے ہیں۔
ترجمان کے مطابق ماڈل ٹا?ن لاہور میں دھواں پھیلانے پر مختلف فوڈ ہا?سز کے خلاف کارروائیاں کی گئیں اور متعدد کو سیل کیا گیا ہے۔ ریت اور مٹی کی ٹرالیوں کی مانیٹرنگ سے سڑکوں پر گرنے والی ریت 45 ٹن سے کم ہوکر 0.45 ٹن ہوگئی۔ آلودگی پھیلانے پر 296 گاڑیوں کے چالان اور پانچ لاکھ 92 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا، 102 گاڑیاں بند کی گئی ہیں۔
پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ لاہور میں 30 الیکٹرک بسیں چلیں گی جبکہ طلبا کو الیکٹرک بائیکس کی فراہمی بھی جاری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں