سابق وزیراعظم عمران خان کے حامیوں کی حکومت مخالف ریلی کو اسلام آباد کے ڈی چوک تک پہنچنے سے روکنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے کارروائی میں کم از کم 30 افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔
یہ پیش رفت حکام کی جانب سے اسلام آباد کے داخلی و خارجی راستے سیل کرنے اور دارالحکومت میں موبائل فون سروسز بند کرنے کے بعد سامنے آئی ہے۔
یہ تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کی جانب سے گزشتہ ایک ماہ سے جاری مظاہروں کی نئی لہر ہے جس کا مقصد عمران خان کی رہائی دلوانا اور حکومتی اتحاد کے خلاف آواز اٹھانا ہے، تحریک انصاف اس حکومت کو دھاندلی زدہ اور غیر قانونی قرار دینے کا دعویٰ کرتی ہے۔
آئی جی اسلام آباد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کم از کم 30 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں عمران خان کی دو بہنیں بھی گرفتار دکھائی گئی ہیں۔
حکام نے بتایا کہ اس سے پہلے اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستوں کو بند کرنے کے لیے شپنگ کنٹینرز رکھے گئے تھے جن کی حفاظت بڑی تعداد میں پولیس اور نیم فوجی دستوں نے کی۔ پولیس نے دارالحکومت میں کسی بھی اجتماع پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔وزیر داخلہ محسن نقوی نے جمعرات کی شب پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا ارادہ رکھتا ہے تو ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نے تحریک انصاف کو احتجاجی مظاہروں کے تاریخیں تبدیل کرنے کی تجویز دی تھی کیوں کہ اس سے اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی تیاریوں میں خلل پڑنے کا خدشہ ہے جو 15 اور 16 اکتوبر کو ہوں گے۔جڑواں شہروں میں موبائل نیٹ ورکس بدستور بند ہیں جبکہ ملک کے بیشتر حصوں میں صارفین کو انٹرنیٹ خدمات میں خلل کا سامنا ہے۔
اس حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک پوسٹ میں کہا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کا مکمل بندش اور دارالحکومت کی جانب جانے والے راستوں کی مکمل ناکہ بندیاں، جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے پیش نظر عائد کی گئی ہیں، لوگوں کے اظہار رائے، معلومات تک رسائی، پرامن احتجاج اور آزاد نقل و حرکت کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔