7 اکتوبر 2023 سے فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت اب تک ختم نہ ہوئی اور اسرائیلی فوج نے نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان پر مظالم ڈھانے کے لیے نیا حربہ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے حالیہ لڑائیوں کے دوران فلسطینی شہریوں کو مجبور کیا کہ وہ غزہ میں ممکنہ طور پر بارودی سرنگوں اور دھماکا خیز مواد سے بھری عمارتوں میں داخل ہوں تاکہ اسرائیلی فوجی نقصان سے محفوظ رہیں۔اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) کے ایک فوجی اور 5 فلسطینی سابق قیدیوں نے انکشاف کیا کہ انہیں ’انسانی ڈھال‘ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ایک اسرائیلی فوجی نے بتایا کہ ان کے یونٹ میں 2 فلسطینی قیدیوں کو جان بوجھ کر اس مقصد کے لیے رکھا گیا تھا کہ انہیں خطرناک علاقوں میں بھیجا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل عام طور پر اسرائیلی یونٹوں میں پایا جاتا ہے اور اسے ’ماسکیٹو پروٹوکول‘ (یعنی مچھر پروٹوکول) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قیدیوں کو عمارتوں میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا تاکہ اگر کوئی بم نصب ہو تو صرف فلسطینی قیدیوں کو نقصان پہنچے اور ان کے اپنے فوجی محفوظ رہیں۔فوجی نے بتایا کہ ان کے یونٹ نے پہلے معیاری طریقہ کار اپنایا، مثلاً کتے کو بھیجنا یا بکتر بند بلڈوزر کے ذریعے عمارت میں سوراخ کرنا لیکن اس سال ایک انٹیلی جنس افسر 16 سالہ اور 20 سالہ فلسطینی لڑکوں کو لایا اور انہیں فوجیوں کے آگے بھیجنے کو کہا۔انٹیلی جنس اہلکار کا دعویٰ تھا کہ ان کا تعلق حماس سے ہے لیکن فوجی کو شک تھا کہ ان افراد کا دہشتگردی کی کسی سرگرمی سے تعلق نہیں۔5 سابق فلسطینی قیدیوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ اسرائیلی فوجیوں نے انہیں خطرناک علاقوں میں داخل ہونے پر مجبور کیا۔
20 سالہ فلسطینی شہری محمد سعد نے بتایا کہ انہیں رفح کے قریب کھانا لینے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور 47 دن تک قید رکھا گیا، انہیں فوجی مشنز کے لیے استعمال کیا گیا جہاں انہیں فوجی وردی پہنائی گئی اور ایک کیمرہ دیا گیا، انہیں مختلف اشیا ہٹانے، فرنیچر کو ادھر ادھر کرنے اور ممکنہ سرنگوں کی تلاش کے لیے استعمال کیا گیا۔
ایک اور فلسطینی قیدی محمد شبیر نے بتایا کہ ان کے والد اور بہن کو قتل کرنے کے بعد انہیں اسرائیلی فوجیوں نے گرفتار کیا اور خطرناک عمارتوں میں لے جا کر انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا۔
یاد رہے کہ بین الاقوامی قوانین کسی بھی شہری کو فوجی سرگرمی میں زبردستی شامل کرنے کی ممانعت کرتے ہیں اور 2005 میں اسرائیلی سپریم کورٹ نے بھی اس عمل پر پابندی عائد کی تھی۔
غزہ کی موجودہ جنگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے یہ الزامات ایک بار پھر سے بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں