ایک استاد، ادیب، شاعر اور صوفی دانشور، اپنے منفرد ادبی اسلوب کے لیے مشہو واصف علی واصف خوشاب کے ایک معزز اعوان قبیلے میں ملک محمد عارف کے ہاں15 جنوری 1929ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا پیدائشی نام ملک محمد واصف ہے۔
قلمی نام واصف علی واصف سے مشہور ہیں ،انہوں نے اپنی مذہبی تعلیم اپنے والد کی نگرانی میں حاصل کی اور 1944 میں گورنمنٹ ہائی سکول خوشاب سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ان کے نانا جو کہ ایک ماہر تعلیم تھے، جھنگ کے گورنمنٹ ہائی سکول میں بطور ہیڈ ماسٹر تعینات ہوئے۔ اس لیے انھیں مزید تعلیم کے لیے جھنگ بھیج دیا گیا۔ واصف نے گورنمنٹ انٹر کالج جھنگ سے ایف ایس سی اور گورنمنٹ ڈگری کالج جھنگ سے گریجویشن کیا۔ وہ ایک محنتی طالب علم تھا، جس نے ہر امتحان میں فرسٹ ڈویژن حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔اس کے بعد وہ لاہور چلے گئے جہاں انہوں نے گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے ریاضی میں ایم ایس سی اور گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے کیا۔
وہ ہاکی کے ایک بہترین کھلاڑی تھے جس کے لیے انہیں ایک رنگ سے نوازا گیا۔ انہوں نے کالج میگزین ’رویان‘ کے لیے لکھنا شروع کیا جب وہ طالب علم تھے۔ وہ اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی لکھتے تھے۔
1954 میں واصف علی واصف نے پراونشل سول سروس (PCS) کا امتحان پاس کیا لیکن اپنی طبیعت کی وجہ سے پبلک سروس میں شامل نہیں ہوئے اور بطور استاد اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ کچھ نجی اداروں میں پڑھانے کے بعد انہوں نے 1958ء میں لاہور کالج فار انگلش (لاہور انگلش کالج) کی بنیاد رکھی، بہت ہی کم عرصے میں ان کی شہرت ایک قابل، مہذب، قابل اور فرض شناس استاد کی حیثیت سے پھیل گئی اور روز بروز بڑھتی چلی گئی۔
وہ اپنے منفرد ادبی اسلوب کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ وہ محبت، زندگی، قسمت، خوف، امید، توقع، وعدہ، دعا، خوشی، غم وغیرہ موضوعات پر نثر کے مختصر ٹکڑے لکھتے تھے۔ اردو اور پنجابی زبانوں میں شاعری کی۔ غالباً ان کے کسی بھی ہم عصر اردو ادیب کےان سے زیادہ اقتباسات نقل نہیں کیے جاتے۔
وہ لاہور میں خصوصی طور پر منعقد ہونے والے اجتماعات میں سوالات کے جوابات دیتے تھے جن میں قابل ذکر کمیونٹی نے شرکت کی۔ ان میں سے کچھ سیشنز آڈیو میں ریکارڈ کیے گئے اور بعد میں گفتگو (بات چیت) سیریز کے طور پر شائع ہوئے۔ ان کی محفلوں میں کبھی کوئی موضوع مقرر نہیں تھا اور نہ ہی وہ منتخب موضوعات پر لیکچر دیتے تھے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ لوگوں سے پوچھیں کہ کیا ان کے سوالات ہیں اور پھر وہ اپنے انتہائی اصلی انداز میں ان کا جواب دیتے ہیں۔
قطرہ قطرہ قلزم، حرف حرف حقیقت، دل دریا سمندر، گمنام ادیب، ذکرِ حبیب، دریچے ان کی تصانیف ہیں جنھیں ان کے طرزِ فکر، اسلوب اور صوفیانہ مضامین کے سبب قارئین نے بے حد پسند کیا۔ انھوں نے شاعری بھی کی اور پنجابی زبان میںبھی ان کا ایک شعری مجموعہ منظرِ عام پر آیا۔آپ کی تحریروں میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہے اور ایک معلم کی حیثیت سے اپنی بات یوں پیش کرتے کہ کوئی ان پڑھ یا عام
آدمی بھی اسے آسانی سے سمجھ لے اور علم سے فائدہ اٹھا سکے۔ ان کی فکر تصوف، روحانیت اور انسانیت پر زیادہ تھی۔
واصف علی واصف کو جدید دور کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے اردو نثر میں بہت شہرت حاصل کی جس میں تصوف اور سماجی اصلاح شامل ہے، اسی لیے انھیں اصلاح پسند سمجھا جاتا ہے۔
18 جنوری 1993 کو64 سال کی عمر میں وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور انہیںلاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
ان کے چند مشہور اقوال درج ذیل ہیں۔
٭ہم صرف زبان سے اللہ اللہ کہتے رہتے ہیں، اللہ لفظ نہیں، اللہ آواز نہیں، اللہ پکار نہیں، اللہ تو ذات ہے مقدس و ماورا، اس ذات سے دل کا تعلق ہے زبان کا نہیں، دل اللہ سے متعلق ہوجائے تو ہمارا سارا وجود دین کے سانچے میں ڈھل جانا لازمی ہے۔
٭ بیدار کردینے والا غم غافل کردینے والی خوشی سے بدرجہا بہتر ہے۔
٭بہترین کلام وہی ہے جس میں الفاظ کم اور معنیٰ زیادہ ہوں۔
٭ہم لوگ فرعون کی زندگی چاہتے ہیں اور موسیٰ کی عاقبت۔
٭ہم ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں اگر ہم معاف کرنا اور معافی مانگنا شروع کر دیں۔
٭آپ کا اصل ساتھی اور آپ کا صحیح تشخص آپ کے اندر کا انسان ہے، اسی نے عبادت کرنا ہے اور اسی نے بغاوت، وہی دنیا والا بنتا ہے اور وہی آخرت والا، اسی اندر کے انسان نے آپ کو جزا و سزا کا مستحق بنانا ہے، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ کا باطن ہی آپ کا بہترین دوست ہے اور وہی بدترین دشمن، آپ خود ہی اپنے لئے دشواری سفر ہو اور خود ہی شادابی منزل، باطن محفوظ ہوگیا، تو ظاہر بھی محفوظ ہوگا۔