ٹرین ٹو مورسیہ( سفر نامہ سپین)

حسنین نازش:
قسط- 13
یورپ کی سستے ایئر لائن ٹکٹس کے مقابلے میں ٹرین کا سفر مہنگا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہوائی جہاز میں استعمال ہونے والے ایندھن پر ٹیکسں نہیں لگایا جاتا حالانکہ اس میں فوسل فیول یا حیاتیاتی ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔ ایئر لائنز کوئی ایندھن ڈیوٹی ادا نہیں کرتی ہیں اور ہوائی جہاز کے ٹکٹس میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے یعنی ان کے لیے سستا ٹکٹ آفر کرنا بہت آسان ہے۔
ہوائی جہاز میں استعمال ہونے والے ایندھن پر ٹیکس نہ لگا کر ’فضائی سفر کو مصنوعی طور پر سستا بنایا جا رہا ہے۔ ٹرین کے لیے استعمال ہونے والے ڈیزل ایندھن پر فی الحال پورے یورپ میں ہر ملک میں مختلف شرح کا ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔
مواصلاتی رابطوں میں بے پناہ ترقی کے باوجود پورے یورپ میں ٹرین کے ذریعے سفر کو تیز تر اور زیادہ موثر بنانے کے لیے ٹرین کے روٹس کو آپس میں جوڑنے کی اب بھی ضرورت ہے۔
اگر ایسا ہوجائے تو یورپ میں ایسا کون ہے جو ٹرین سے سفر نہیں کرنا چاہے گا؟
ٹرین کے مسافر ایسی بہت سی آسائشوں اور طرزِ زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو ہوائی جہاز کے سفر میں کہاں نصیب ہوتی ہیں۔
آرام سے سفر کرتے ہوئے پرانے طرز زندگی کا لطف اٹھانا، ڈائننگ کار میں کھانا کھاتے ہوئے دیہی علاقوں کا نظارہ کرنا ایک مسحور کن تجربہ ہوتا ہے۔
ریل کے رومانس نے شاعروں، ناول نگاروں،افسانہ نگاروں، سفرنامہ نگاروں اور ہدایت کاروں کوہمیشہ ہی سے اپنی جانب راغب کیا۔ ٹرین کے سفر سے متعلقہ ناول، افسانے، سفرنامے، ڈرامے اور فلمیں ایک مدت سے قارئین، سامعین اور عوام الناس میں بے حد مقام رکھتے آرہے ہیں۔
وقتی دوستی،محبت کے فسانے، قانونی اور غیر قانونی معاملات اور ہر طرح کے جرائم کا گڑھ اوراورجرائم پیشہ افراد کو گرفتارکرنے کے لیے ٹرین اور ٹرین سے متعلقہ کہانیوں کاچلن خوب رہا ہے۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ٹرین کا ٹکٹ صرف سواری کا اجازت نامہ نہیں ہے بلکہ یہ دوسرے لوگوں کی زندگیوں کی قربتوں میں شامل ہونے یا پھر دوسر صورت میں ان قربتوں کو پامال کرنے کااجازت نامہ بھی ہے۔ ریل گاڑیاں اور ریل گاڑی کا سفر مسافروں کو قریب سے قریب تر لے آتی ہیں۔گاڑی کے اندر اور باہرڈائننگ ڈبوں میں سیاست کی باتیں کرتے ہیں۔ ریل کی کھڑکی سے باہر، دنیا چمکتی ہے، سمندروں کے کنارے سفر کرنا، دریاؤں کا پرسوز شور، پہاڑوں اور قصبوں میں پھیلے ہوئے وسیع وعریض میدان اور کھلیان،صحراؤں سے اٹھنے والے صحرائی طوفان، دوران بارش رات رات بھربادلوں کے گرجنے کے ساتھ بجلی کی گھن گرج یہ سب فطرتی رونقیں ریل کے سفر ہی کی مرہون منت ہیں۔مسافر انہی ریل کی کھڑکیوں سے ہری سبز جھیلوں کو شیشوں کی طرح چمکتے ہوئے دیکھتے ہیں، برف سے ڈھکی چوٹیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
دوسری جانب موسمیاتی تبدیلیاں زور پکڑ رہی ہیں۔ مسافرسیر وسیاحت اور ذرائع رسل ورسائل کے لیے سست اور زیادہ باشعور طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ اس لیے ریل کا سفر نئے جوش کے ساتھ نئی دنیا میں لوٹ رہی ہے۔ سلیپر ٹرینوں کی بحالی،مسافروں کی باقاعدہ سواریوں سے لے کر گلیمرس ٹورسٹ ٹرینوں تک، بہت سی دیگر ریل سے متعلق خدمات نے مناظر، تاریخ میں ان کے کردار،اور ثقافت میں ان کے مقام کے لیے مشہور مقام حاصل کیا ہے۔
بارسلونا اور مورسیہ کے درمیان روزانہ تقریباً 5 ٹرینیں چلتی ہیں جو 473 کلومیٹر کا سفر مکمل کرنے میں 10سے 11 گھنٹے کا وقت لیتی ہیں۔ اگرچہ اس لائن پر کوئی براہ راست ریل نہیں چلتی اس لیے راستے میں کم از کم ایک ٹرین کی تبدیلی کی ضرورت ہوگی۔بارسلونا سے ویلینشا اور ویلینشا سے مورسیہ کے راستے پر مجھے رینفے ریل سروس کے ساتھ سفر کرنا تھا جو سپین میں ٹرین کا مرکزی آپریٹر ہے اور یورپ میں تیز رفتار ٹرینوں کا سب سے وسیع نیٹ ورک رکھتا ہے۔ اس ٹرین کو صبح گیارہ بجے بارسلونا سے روانہ ہوکر رات نو بج کر تیس منٹ پر مورسیہ پہنچنا تھی۔

میں بھی یہی امید لے کر بجائے بجٹ ائیر لائن کا تیس یورو کا ٹکٹ لے کر بارسلونا سے مورسیہ پہنچتا، میں نے پچپن یورو کے عوض ریل کا سفر اپنے لیے پسند کیا۔ایک تو آٹھ، نوگھنٹے کا یہ سفر جو سارے کا سارا دن کی روشنی میں طے ہونا تھا۔ منظر آفرین سفر بننے جا رہا تھا۔ دوسرا یہ کہ بارسلونا میں گزرے شب وروز کو اپنی ڈائری میں منتقل کرنے کا اچھا موقع اور وقت میسر آسکے گا۔ اگر سابقہ سفرنامہ نگاروں کی مانند قسمت اچھی ہوئی (جس کے امکانات ہمیشہ کم کم ہی رہے)تو عین ممکن ہے کہ کسی نئی کہانی کا آغاز ہو جائے اور اس اکلاپے میں گزرنے والا سفر کسی انجانے ہم سفر کے ساتھ کے سبب نئی کہانی اور افسانے کا محرک بن جائے۔
ٹرین دن ٹھیک گیارے بجے بارسلونا کے پلیٹ فارم سے نکلی تو مجھے محسوس ہوا کہ میں اس لمحے کا ایک زمانے سے انتظار کر رہا تھا۔ جیسے ہی ٹرین بارسلوناشہر کے مرکز سے آگے بڑھی لمحہ بہ لمحہ شہری جدت کی جھلکیاں نظر کے سامنے لہرانے لگیں۔بلند وبالا عمارات، سکائی سکریپر اور فلک بوس فلیٹ ریلوے ٹریک کے دائیں بائیں میلوں تک پھیلے بارسلونا شہر کو دور جدید کے اہم شہروں میں شمار کر رہے تھے۔ ٹرین تھوڑی دیر بعد مضافاتی علاقوں میں دوڑنے لگی۔دلکش لکڑی کے خوبصورت گھر بل کھاتی ہوئی ٹرین سے بے حد خوب صورت لگ رہے تھے۔
اس ٹریک کو اتنی مہارت سے بنایا گیا ہے کہ سمت میں تبدیلی کا بمشکل ہی احساس ہوتا ہے۔ ایک منٹ پہلے ہم مغرب کی طرف سفر کر رہے تھے اور اگلے ہی لمحے ہم شمال کی طرف جا رہے تھے اور اس تبدیلی کا اعلان کرنے کے لیے دور تک پھیلے مناظر ہی کافی تھے کیونکہ اچانک پہاڑیاں اونچی ہو گئیں، اور صاف ستھرے الپائن سبزہ زار اور صنوبر پوش پہاڑی دامن گہری وادیوں میں پھیلے نظر آئے جہان چھوٹے دیہاتوں میں دور دور بنے فارم ہاؤسز پھیلے ہوئے تھے۔
منظر میں تبدیلی دھیرے دھیرے آ رہی تھی۔ ٹرین کی سست رفتار نے اشارہ کیا کہ اب ریل گاڑی اونچائی کی جانب رواں ہے۔ ہم ایک خوبصورت چٹانی کھاڑی سے ہوتے ہوئے ایک وادی میں داخل ہوئے۔ جب ہم وہاں سے نکلے تو ہم وادی کے فرش سے اونچے درے سے گزرے جہاں سے ہم نے مڑ کر دیکھا تو وہ سب بہت نیچے نظر آ رہا تھا جسے ابھی ہم چھوڑ کر آئے تھے۔

SONY DSC

بارسلونا شہر کی خوبصورت تعمیرات سے نکل کر ہم شہر سے دور زرعی زمینوں کے نہ ختم ہونے والے میدانی سلسلے میں داخل ہوگئے۔ برق رفتار ٹرین منزلوں کو پلک جھپکتے ہی پیچھے چھوڑ رہی تھی۔دونوں اطراف کھیت اور کھیتوں میں کام کرنے والے دہقان تھے۔ پھر ان کھیتوں کا نہ ختم ہونے والے سلسلے کو چند منٹ چھوٹے بڑے شہر و دیہات کے دلکش مناظر نے روکا جوکہ یقیناً جدید سپین کا دیہاتی منظر نامہ تھا۔
حد نگاہ گھنے جنگلات، ہریالی، لہلاتے کھیت اور درختوں کا جھنڈ۔ سپین کی سرزمین قدرت کی ان قیمتی نعمتوں سے سجی ہوئی ہے۔
میری نشست کے آگے ماں بیٹی بیٹھی تھیں۔ ماں کی عمر لگ بھگ چالیس برس ہو گی تو اس کی بیٹی کوئی اٹھارہ بیس برس کی ہو گی۔ ا ن دونوں کی منزل ویلینشیاتھی۔ سارا رستہ ماں بیٹی ایک دوسرے کو کوستی رہیں۔
قصہ کچھ یوں تھا کہ دونوں نہ صرف بارسلونا میں اپنی چھٹیاں گزارنے آئیں تھیں بلکہ نوجوان لڑکی جس کانام سٹیفنی تھا، اس کے بوائے فرینڈ سے مل کر معاملات حسن وعشق کو رشتہ ازدواج میں جوڑنے کے مراحل تک پہنچانے آئیں تھیں۔ ستم دیکھیے کہ جب پہلی بار سٹیفنی کے بوائے فرینڈ ”اورسن“ نے سٹیفنی کی عمر سے دوگنی اس کی ماں ”آریانا“سے پہلی بار بالمشافہ ملاقات ہوئی تو جناب بیٹی کی بجائے ماں کو دل دے بیٹھے۔ ”آریانہ“ گزشتہ تین برسوں سے ”سنگل“ تھی۔ اسے مالدار، وجیہہ اور کم عمر لڑکا ملا جو اس کی بیٹی کی بجائے اس میں دلچسپی لینے لگا تو وہ کیونکر پیچھے ہٹتی۔ اس لیے بارسلونا میں اورسن اور آریانہ نے زیادہ وقت اکھٹے گزارا۔ سٹیفنی تو ان دونوں کے تعلق کو محض دوستی یا ہونے والے داماد اور ساس کے تعلق کے طور پر دیکھ رہی تھی لیکن کل روٹین واک سے پہلے ہی اورسن کے گھر میں داخل ہوئی جہاں اس نے اپنی ماں اور بوائے فرینڈ کو بے لباس قربتوں کی انتہا کو چھوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو نہ صرف اپنے بوائے فرینڈ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا بلکہ ساتھ ہی اب ماں کو اپنے گھر سے نکالنے کے درپے ہوئی ہے۔ چونکہ گھر اس کے نام ہے جو اس کے والد مرحوم نے اس کے نام کیا تھا۔ ادھر آریانہ اسے گھنٹوں سے یہ سمجھانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ہم دونوں ایک ہی مرد کے ساتھ اگر اکھٹے رہیں تو کیا مضائقہ ہے۔ تم بھلے اس سے شادی کرلو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر سٹیفنی اپنی محبت کو کسی طور نہیں بانٹ سکتی تھی اور نہ ہی اسے اورسن کی بے وفائی قبول تھی۔ تکرار جاری رہی، ریل گاڑی ویلنشیا سٹیشن پہنچی تو دونوں ماں بیٹی ایک دوسرے سے پھر سے الجھتی ہوئی ریل سے باہر نکل گئیں۔
یہاں سے ریل گاڑی ویلینشیا سے مورسیہ کی جانب چل پڑی۔ میں نے اس دوران ڈائری میں بارسلونا میں گزرے شب وروز رقم کرنے شروع کیے۔ رات کے آٹھ بج چکے تھے۔ تھوڑی دیر بعد مجھے مورسیہ کے ٹرین سٹیشن پر پہنچنا تھا جہاں میرا کزن عاصم شکور شدت سے میرا منتظر تھا۔

جاری ہے….

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں