پارسائی کا غرور ( شیخ سعدی شیرازی کی سبق آموز حکایت)

حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ بچپن میں مجھے عبادت کا بہت شوق تھا۔ میں اپنے والد محترم کے ساتھ ساری ساری رات جاگ کر قرآن مجید کی تلاوت اور نماز میں مشغول رہتا تھا۔ ایک شب کو میں اپنے والد صاحب کے ساتھ مسجد میں گیا، میرے والد ساری رات وہاں عبادت کرتے رہے، ان کے ساتھ میں بھی نماز میں مشغول ہو گیا۔ ہمارے نزدیک چند آدمی گہری نیند سورہے تھے۔ میں نے ان کی یہ حالت دیکھی تو اپنے والد صاحب سے کہاکہ یہ لوگ ایسے سو رہے ہیں، جیسے مر گئے ہوں۔ کسی نے نماز پڑھی اور نہ دعا کی۔ ان لوگوں کی حالت پر افسوس ہے ۔ ان سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ اٹھ کر تہجد کی نفلیں ہی ادا کر لیتے۔‘‘
والد محترم نے میری یہ بات سنی نے تو فرمایا’’بیٹے اگر تو بھی نوافل نہ پڑھتا، باقی ذکر نہ کرتا اور ان لوگوں کی طرح سو جاتا تو اس سے بہتر ہوتا کہ تو ان کی برائی بیان کر رہا ہے (یعنی غیبت کررہا ہے وغیرہ) یعنی دوسروں کو کم درجہ خیال کرنے اور ان کی برائی کرنے سے تو بہتر تھا کہ تو بھی سوجاتا۔‘‘

غرور نادان کی آنکھوں پہ پردہ ڈال دیتا ہے
وہ اوروں میں سوائے معصیت کچھ بھی نہیں پاتا
اگر اللہ بخشے دیدہ حق نظر تو انساں کو
نظر اپنی برائی کے سوا کچھ بھی نہیں آتا
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں غرور پار سائی اور غیبت کی خرابی بیان کی ہے۔ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس سے محتاط لوگوں میں سے بھی کم بچ پاتے ہیں۔ جب ایک شخص خود کو اطاعت حق میں مشغول پاتا ہے۔ اور دوسروں کو اس طرف سے بے پروا پاتا ہے تو غیر محسوس طور پر اس کے دل میں یہ غرور کہ میں نیک ہوں اور اگر ایسا شخص اپنی غلطی سے آگاہ ہو کر فوراً توبہ نہ کر لے تو عذاب کا مستحق ہو جاتا ہے کیونکہ غرور کو مٹانا عبادت کا اوّلین مقصد ہے۔دوسروں کو کم درجہ سمجھنے کی بجائے ہمیں اپنی اصلاح پر توجہ دینی چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں