محمدطلحہ عدیل:
حسیب اپنے والدین کااکلوتابیٹاتھا۔اسے کسی بھی چیزکی کمی نہ تھی۔رات کوجب اس کے ابوگھرآئے تووہ سیدھاان کے پاس گیا اورکہا:’’پاپا!کل ہم بازارچلیں گے توآپ مجھے بہت ساری پتنگیں لے دیجئے گا۔‘‘
’’کیوں بیٹا!آپ ان پتنگوں کاکیاکروگے؟‘‘اس کے ابونے سوالیہ اندازمیں پوچھاتوحسیب بولا:’’ابوجان!میرے سب دوست پتنگ اُڑاتے ہیں تومیں بھی گھرکی چھت پرچڑھ کرپتنگ بازی اُڑائوں گا‘‘۔
’’لیکن بیٹا!آپ کوپتہ ہے پتنگ بازی کے بہت سے نقصانات ہیں ؟‘‘ ابو نے سنجیدگی سے کہا۔
’’نہیں!آپ مجھے بتائیں۔‘‘ حسیب نے تجسس سے پوچھاتواس کے ابونے کہا:’’سب سے بڑانقصان تویہ ہے کہ خودپتنگ اڑانے والے کو جان کا خطرہ رہتاہے۔کیونکہ جب ہم پتنگ اڑارہے ہوتے ہیں تودوسرے کی پتنگ کاٹنے کے جنون میں ہمیں پتہ ہی نہیں چلتاکہ ہم چھت سے نیچے گر سکتےہیں جس سے ہمارے جسم کی کوئی نہ کوئی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے اورہم موت اورزندگی کی کشمکش میں بسترپرپڑ سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ بیٹا!جب ہم کسی کی پتنگ کاٹتے ہیں یاکوئی ہماری پتنگ کاٹتاہے تواس پتنگ کی ڈورراہ چلتے ہوئے کسی بھی انسان کی گردن میں پھنس جاتی ہے جس سے اس کی گردن کٹ سکتی ہے۔کبھی پتنگ بجلی کی تاروں میں پھنس جاتی ہے جس کواتارنے کے چکرمیں کرنٹ لگنے سے آدمی اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتاہے۔اب بیٹا!آپ خوداندازہ لگائیں ،ایک بیس ،پچیس روپے کی پتنگ کی وجہ سے کتنے لوگوں کی جان خطرے میں پڑگئی۔اس لیے بیٹا!کوشش کروایساکھیل مت کھیلوجس سے خودکواوردوسروں کوتکلیف پہنچے۔یادرکھو!ہمارا پیارا دین اسلام بھی ہمیں ایسے کھیل کی اجازت بالکل نہیں دیتا۔‘‘ابو نے تفصیلاً سمجھاتے ہوئے حسیب سے پوچھا۔’’اب تو آپ پتنگ بازی نہیں کرنا چاہو گے ناں۔‘‘
ابوکی بات سن کرحسیب نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے ابوسے وعدہ کیاکہ وہ آج کے بعدپتنگ بازی باالکل نہیں کرے گااورنہ ہی کبھی پتنگ خریدے گا۔ساتھ ہی یہ بھی وعدہ کیاکہ وہ اپنے تمام دوستوں کواس کھیل سے ضرورمنع کرے گا۔‘‘ اس کی بات سن کر ابو بہت خوش ہوئے اور اسے گلے لگا لیا۔