پڑوسی کے حقوق

محمدطلحہ :
’’باجی!حامدکوکہیں کمپیوٹرکی آوازتھوڑی سی کم کرلے ،اس کے انکل کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے۔‘‘باجی راشدہ نے دیوارسے چڑھ کر حامد کی امی سے کہا۔باجی راشدہ ان کی ہم دیوار ہمسائی تھیں۔اس لیےان کے گھر کسی بھی طرح کا شور سیدھا باجی راشدہ کے گھر بھی سنائی دیتا۔باجی راشدہ کی التجا سن کرامی سیدھاحامدکے کمرے میں گئیں اوراسے آوازکم کرنے کوکہامگراس نے سنی ان سنی کر دی۔امی نے تنگ آ کرسوئچ بورڈ سے ہی کمپیوٹرکاپلگ نکال دیاتو حامد چڑ گیا اور برے برے منہ بناتے ہوئے امی سے کہا’’ باجی راشدہ کی شکایت سن کر آپ نے میرا کمپیوٹر کیوں بند کر دیا۔میں ان کے گھر میں تو شور نہیں کر رہا ناں۔اب انسان اپنے گھر میں بھی اپنی مرضی سے نہ رہے کیا؟‘‘
امی نے اس کی بات تحمل سے سنی اور پھر اسے سمجھاتے ہوئے بولیں’’بیٹا!باجی راشدہ نےبتایاکہ ان کے خاوندکی طبیعت خراب ہے اورشورکی وجہ سے اورخراب ہورہی ہے۔یہ شور ہمارے گھر سے ان کے گھر جا رہا ہے۔ بیٹاہمیں چاہئے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کے حقوق کاخیال رکھیں ۔رات آپ کے داداابونے بھی توہمیں خاتم النبیین سیدالبشرحضرت محمد ﷺ کی حدیث مبارکہ پڑھ کرسنائی تھی کہ’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگاجس کے پڑوسی اس کے شرسے محفوظ نہ ہوں۔‘‘کیاتم جنت میں داخل نہیں ہوناچاہتے؟‘‘امی نے سوالیہ اندازمیں پوچھاتوحامدبہت شرمندہ ہوا،اس نے امی سے معافی مانگی اوروعدہ کیاکہ وہ آج کے بعدپڑوسیوں کے حقوق کاخیال رکھے گااوران کوکسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہیں پہنچائے گا۔
جگمگ دوستو! اگرآپ چاہتے ہیں کہ اس حدیث کی وعیدسے بچ جائیں تواپنے پڑوسیوں کاہرطرح سے خیال رکھیں ۔یہ عمل جہاں ہمیں آخرت کے عذاب سے بچائے گا بلکہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سرخرو بھی کرے گاکیونکہ ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا ’’کسی محلے کے لوگوں میں اللہ کے نزدیک سب سے افضل اور بہتر وہ شخص ہے جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہو۔‘‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں