چور اور مالی

محمد شاہ ویز:

ایک چور آم کے باغ میں گھس گیا اور آم کے ایک پیڑ پر چڑھ کر اُس نے شاخوں کو اس قدر ہلایا کہ کئی آم نیچے آپڑے ۔اتفاقاََمالی بھی آگیا اور چور کو دیکھ کر کہنے لگا:’’کچھ خدا کا بھی خوف کرنا چاہیے۔تجھے آخر مرنا ہے اور پھر حساب کتاب کے لیے قیامت کے دن اُٹھنا ہے ۔تب خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے؟‘‘
چوربولا:’’تم کون ہو،یہ باغ خدا کا ہے اور میں خدا کا بندہ ۔وہ کھِلاتاہے تو میں کھاتاہوں ۔اُس کے حکم کے بغیر تو پتا بھی نہیں ہل سکتا ۔مجھ سے جاہلانہ کلام نہ کر۔معلوم ہوتا ،تجھ میں نری جہالت ہے ،عقل نام کو بھی نہیں ۔‘‘
مالی نے یہ بات سن کر دل میں کہا کہ چور بڑا منطقی (دلیل سے جواب دینے والا)ہے ۔میں اسی کی منطق میں ایسا مناسب جواب دوں گا کہ عمر بھر نہ بھولے گا ۔مالی چور سے بولا:’’حضرت ! نیچے آئیے ،ہم پر کرم فرمائیے ،آپ کی صحبت غنیمت ہے ۔مدت بعد آپ جیسا دانشور ملا ہے۔پیرومرشد! تشریف لائیے اور ہمیں راہِ نجات دکھائیے ۔‘‘
چور بڑے فخر سے نیچے آتر آیا ۔مالی نے وہیں پکڑ لیا اور آم کے درخت سے خوب مضبوطی سے باندھ کرپہلے تو مکوں سے اس کی تواضع کی۔ جب تھک گیا تو لاٹھی لے کر اس کی خوب مرمت کی۔جب مارنے چور کو ڈھیلاکردیا تو لگا فریاد کرنے :’’اے ظالم ! خدا سے ڈر ،میں نے تیرا کیا نقصان کیا ہے کہ مجھ بے گناہ کویوں بے دردی سے پیٹ رہا ہے؟‘‘
مالی نے ہنس کر جواب دیا :’’حضرت! اتنی جلدی اپنی بات بھول گئے۔کیا اس لاٹھی کو خدانے نہیں بنایا،کیا مارنے والا ہاتھ اور مارکھانے والا جسم خدا کا ہی پیدا کردہ نہیں ۔آپ کیوں ناحق گلہ کرتے ہیں ،اس میں آپ کا کیا نقصان ؟اس کے حکم کے بغیر تو پتا بھی نہیں ہل سکتا ۔آپ کی یہ فریادجاہلانہ ہے ۔‘‘
چور سمجھ گیا کہ اس کا دائو اسی پر الٹا چل گیا ہے ۔وہ گڑاگڑاتے ہوئے بولا کہ ’’بھائی میں نے خوامخواہ اپنی گناہ کو خدا کے نام کا سہارا دینے کی غلطی کی۔مجھے اب چھوڑدے،آئندہ میں کبھی ایسی بات منہ سے نہ نکالوں گا اور نہ کبھی چوری کانام لوں گا۔‘‘
مالی نے ہنس کر اسے کھول دیا اور جانے دیا۔چور نے مالی سے اچھا سبق سیکھ لیاتھا اور سچے دل سے توبہ کر لی تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں