کولیسٹرول کی مقدار میں توازن کیوں ضروری ہے

کولیسٹرول ایک کیمیائی چربیلا نرم مومی مادہ ہے، جو جسم میں خون کے اندر قدرتی طور پر پایا جاتا ہے۔جسم کو صحت مند رکھنے اور خلیات بنانے کے لئے کولیسٹرول کی متوازن مقدار ضروری ہے، لیکن جب اس مقدار کا توازن بگڑ جائے تو طبی مسائل لاحق ہو جاتے ہیں۔کولیسٹرول جگر کے نمکیات کا بنیادی جزو ہے، جو پتے سے خارج ہوتا ہے اور ہماری خوراک میں شامل چربی کو جسم کا حصہ بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
کولیسٹرول کا یہ مادہ جگر بناتا ہے، جو کل مقدار کا 70 فیصد ہوتا ہے، جبکہ باقی 30 فیصد غذا کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔عمر بڑھنے کے ساتھ جسم میں کولیسٹرول کی مقدار بھی بڑھتی چلی جاتی ہے، اس لئے خاص طور پر 50 سال کے بعد سال میں ایک بار کولیسٹرول کی جانچ کا ٹیسٹ لازمی کروایا جائے۔

کولیسٹرول کی مقدار میں اضافے کی وجہ سے ہارٹ اٹیک، ذیابیطس، یورک ایسڈ اور فالج کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

کولیسٹرول ہمیشہ خطرناک نہیں ہوتا، بلکہ کولیسٹرول کی صرف ایک قسم وہ بھی بڑھنے کی صورت میں خطرناک ثابت ہوتی ہے۔کولیسٹرول دھوپ سے حاصل ہونے والی روشنی کو وٹامن ڈی میں تبدیل کرتا ہے۔کولیسٹرول جسم میں اہم حیاتاتی عوامل کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس کے علاوہ خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھاتا ہے۔اعصابی نظام کے خلیات اور نسوں کو منظم طریقے سے کام میں مدد فراہم کرتا ہے اور پیغام رسانی کا عمل سہل بناتا ہے۔
جلد میں ہارمونز کی تیاری میں معاون ہے، تو سٹیر رائیڈ ہارمون بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔صفرا (Bile) کی تیاری کا اہم جزو گردانا جاتا ہے۔خلیات کے اندر، باہر جانے کے راستوں کو کنٹرول کرتا ہے۔یعنی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کن ذرات کو خلیات کے اندر داخل ہونا ہے۔جسم کے خلیات کی بیرونی جھلیاں بنانے کے لئے لازمی جزو ہے۔ایسٹروجن ہارمونز اور ٹیسٹوسٹیرون ہارمونز کی تیاری میں مددگار ہے۔

جسم میں کولیسٹرول کا توازن بگڑ جانے کی صورت میں جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، اُن میں جگر کی کارکردگی متاثر ہونا، بائیں طرف سینے میں درد، دل کا عارضہ لاحق ہونا، فالج، خون کی شریانوں میں تھکے (کلاٹ) بننا، بلند فشارِ خون، ٹانگوں، گردن میں درد، آنکھوں کی پلکوں کے گرد پیلے رنگ کے دانے یا دھبے، جبکہ گالوں، ماتھے پر بھی نارنجی رنگ کے دانے بننا، ہاتھ پیر ٹھنڈے ہونا،، ناخنوں کا رنگ تبدیل ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
یوں تو کولیسٹرول میں اضافے کے مختلف عوامل ہیں، لیکن زیادہ تر کیسز میں موروثی خرابی یا غیر متوازن غذا کا استعمال اس کی وجہ بنتی ہے۔غیر متوازن غذا میں چکنائی والی اشیاء (جیسے بکرے یا گائے کا گوشت، انڈے اور پیزا وغیرہ) کا زیادہ استعمال شامل ہے۔دراصل چربی یا چکنائی پانی میں حل نہیں ہوتی ہے۔واضح رہے، جسم میں موجود چربی Lipid کہلاتی ہے، جو مختلف اقسام کی ہوتی ہے۔
جب ہم سیچوریٹڈ فیٹس (Saturated Fats) یعنی دیر سے پگھلنے والی چکنائی استعمال کرتے ہیں، تو چونکہ یہ بہت سخت کیمیائی ساخت رکھتی ہیں، اس لئے زیادہ توانائی فراہم کرتی ہیں۔جسم میں جس قدر یہ چکنائی ہو گی، اسی قدر زیادہ کولیسٹرول بنے گا۔
کولیسٹرول خون کی نالیوں میں بھی تحلیل نہیں ہوتا اور ایک سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لئے PO Protein کا سہارا لینا پڑتا ہے، جو کئی قسم کا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ایچ ڈی ایل (ہائی ڈینسٹی لیپو پروٹین)، مضرِ قلب ہے۔اس سے خون کی شریانوں میں Atheroma بن کر ان کی تہہ پر جم کر خون کی شریانیں سخت اور تنگ ہو جاتی ہیں۔اس طرح دل اور دماغ کو خون کی پوری فراہمی نہ ہونے سے صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ایل ڈی ایل (لو ڈینسٹی لیپو پروٹین)، خون کی نالیوں میں تھکے نہیں بننے دیتا، بلکہ اضافی چکنائی کی مقدار کو اپنے ساتھ جگر میں پہنچا دیتا ہے، جہاں سے صاف ہو کر پورے جسم میں چلا جاتا ہے۔
یہ ورزش اور جسمانی سرگرمیوں سے بڑھتا ہے اور امراضِ قلب کے لئے مفید ہے۔وی ایل ڈی ایل (ویری لو ڈینسٹی لیپو پروٹین)، کولیسٹرول کو جگر سے خون میں پہنچاتے ہیں۔تاہم، وی ایل ڈی ایل لیپو پروٹینز کو دو وجوہ کی بنا پر ایل ڈی ایل سے کم اہمیت دی جاتی ہے۔پہلی وجہ یہ کہ یہ کولیسٹرول کے بجائے زیادہ تر ٹرائی گلیسرائیڈز کی ترسیل کرتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اگر خون میں ٹرائی گلیسرائیڈز کی مقدار زیادہ ہو تو وی ایل ڈی ایل کی مقدار بتانے والے بالواسطہ طریقہ کار اتنے کارآمد نہیں رہتے۔
ٹرائی گلیسرائیڈ بھی چکنائی کی ایک قسم ہے، جو چکنائی اور شکر کے زیادہ استعمال سے بنتی ہے۔اس کی متوازن مقدار 150 ملی گرام فی 100 ملی لیٹر ہے۔اس سے قلب کو ملنے والا خون گاڑھا ہوتا ہے۔یہ موٹاپے کا باعث بھی ہوتا ہے۔لیپو پروٹین کولیسٹرول کے آغاز سے اختتام تک کے سفر میں کام آتے ہیں اور کولیسٹرول کو منتقل کرتے ہیں۔اس لئے لیب ٹیسٹ میں کولیسٹرول کی تشخیص کے لئے ان ہی کی مقدار کو جانچا جاتا ہے۔
جگر میں پتے کے ذریعے زائد کولیسٹرول تبدیل ہو کر صفرا بناتا ہے، جو پہلے آنت میں جاتا اور پھر براز کے ذریعے جسم سے خارج ہو جاتا ہے۔کولیسٹرول یعنی چربی کی زائد مقدار کی موجودگی جگر میں خرابی اور پتے میں پتھری کا باعث بھی بنتی ہے، جبکہ بعض خاندانوں میں نسل در نسل کولیسٹرول زیادہ بنانے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔اس لئے ایسے خاندانوں میں موٹاپا اور امراضِ قلب کے مسائل فیملی ہسٹری میں شامل ہوتے ہیں۔
موٹاپا بھی کولیسٹرول زیادہ ہونے کا باعث ہے۔
میڈیکل سائنس کے مطابق خون میں کولیسٹرول کی مقدار 170 تک نارمل ہے۔200 سے 240 تک کی مقدار خطرے سے باہر قرار دی جاتی ہے۔تاہم، بہتر تو یہی ہے کہ کولیسٹرول کی مقدار 200 سے زائد نہ ہونے دی جائے۔اگر یہ مقدار 200 سے زائد ہو جائے، تو وقفے وقفے سے چیک کرواتے رہیں، تاکہ خطرے کی حد پار نہ ہو سکے۔کولیسٹرول کو نارمل حد میں رکھنے کے لئے موسم کے مطابق متوازن غذا استعمال کریں۔
چکنائی اور گوشت کم استعمال کریں، تو بہتر ہے۔سبزی خوری کی عادت اپنائیں، خاص طور پر سبز پتے والی سبزیاں کھائیں۔وزن نہ بڑھنے دیں۔موٹاپا نہ ہونے دیں۔پھل، فائبر والی غذائیں، سیب، خوبانی، دھنیا، میتھی دانہ، آملہ، اناج، دالیں، چاول، آلو، لیموں، اخروٹ، کاجو، پستے وغیرہ استعمال کریں۔اس کے علاوہ غیر سیر شدہ تیل اور حیاتین ج والی غذاؤں کا استعمال بہتر ہے۔
مچھلی کا استعمال بھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔سیر اور ورزش کو معمول کا حصہ بنا لیں۔تمباکو نوشی سے اجتناب برتیں۔نماز باقاعدگی سے ادا کریں اور خوش خرم رہیں۔چکنائی اور تلی ہوئی اشیاء، انڈے، کریم، مکھن، پیزا، دودھ، گوشت، گردے، کلیجی، سری پائے، مغز اور بازاری اشیاء کے استعمال میں احتیاط کریں۔ماہرین طب و صحت کی ایک تحقیق کے مطابق صرف غذائی تبدیلی سے ایک ماہ میں 50 تا 60 ملی گرام کولیسٹرول کم کیا جا سکتا ہے اور چھے ماہ کی احتیاط سے 100 سے 150 ملی گرام کمی کی جا سکتی ہے۔
بطور علاج ہمدرد کی گار لینا صبح و شام دو دو گولیاں تازہ پانی سے تین ماہ تک استعمال کریں۔انہیں حفظِ ماتقدم بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں 45 سال سے زائد عمر کے افراد میں سے ہر چوتھا فرد کولیسٹرول کم رکھنے والی ادویہ استعمال کرتا ہے۔اس تحقیق میں یہ پہلو بھی پیش نظر رکھا گیا کہ غذا کی تبدیلی اور ادویہ استعمال کیے بغیر بھی کولیسٹرول ایل ڈی ایل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے 351 افراد پر جو مطالعہ کیا گیا، تو کولیسٹرول میں کمی کا نمایاں فرق سامنے آیا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اصل معاملہ غذا کا ہے۔اس مطالعے کے مطابق ادویہ استعمال کرنے والے افراد یہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ ادویہ استعمال کرنے کی وجہ سے ہر قسم کی غذا استعمال کر کے کولیسٹرول متوازن رکھ سکیں گے، جو درست نہیں۔کیونکہ غذا کی تبدیلی کے بغیر چاہے جتنی بھی ادویہ استعمال کر لیں، کولیسٹرول بڑھ جاتا ہے، لہٰذا غذا پر توجہ ضروری ہے اور چکنائی سے احتیاط برت کر پھل، سبزیاں زیادہ استعمال کی جائیں۔

کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں