واشنگٹن: لاس اینجلس کے جنگلات میں لگی آگ اپنے پیچھے تباہی کے نشانات چھوڑ رہی ہے جس کے بعد سوشل میڈیا پر سازشی تھیوریاں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگ آگ کے غیر معمولی نمونوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ لوگ خاص طور پر گھروں کے سامنے لگائے گئے کھجور کے درختوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر اور کاریں مکمل طور پر جل کر راکھ ہو گئیں لیکن یہ کھجور کے درخت کیسے محفوظ رہے۔ آگ کے بارے میں بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہ جان بوجھ کر لگائی گئی؟ کیونکہ خبر یہ بھی ہے کہ کیلیفورنیا کی انشورنس کمپنی”فارم انشورنس” نے پیسیفک پیلیسیڈس کے علاقے میں سینکڑوں گھروں کی پالیسیاں منسوخ کر دی تھیں۔
یہ وہی علاقہ ہے جو اب آگ میں جل رہا ہے اور لوگوں کو انشورنس کی اشد ضرورت ہے۔ بیمہ کرنے والے نے کہا کہ اس نے گولڈن اسٹیٹ میں جنگل کی آگ کی بڑھتی ہوئی تعدد اور شدت کو دیکھتے ہوئے خود کو مالی طور پر ناکارہ ہونے سے بچانے کے لیے یہ قدم اٹھایا۔
سب سے زیادہ پھیلی ہوئی سازشی تھیوری یہ ہے کہ لاس اینجلس کے جنگلات میں آگ لگنے کے لیے ڈائریکٹڈ انرجی ویپن (DEW) کا استعمال کیا گیا،سازشی تھیوری کے حامی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک نئی قسم کے شہر قائم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ہالی ووڈ اسٹار میل گبسن نے بھی سوالات اٹھا دیے ہیں کہ کیا گورنر گیون نیوزوم اور کیلیفورنیا کی حکومت اس تباہی میں ملوث ہو سکتی ہے؟ گبسن نے سوال اٹھایا کہ کیا آگ جان بوجھ کر لوگوں کو مہنگی جائیداد سے دور کرنے کے لیے لگائی گئی تھی۔ اس نے کہا کہ میں اپنے ذہن میں کئی طرح کی تھیوری بنا سکتا ہوں۔ لیکن سب سے آسان بات یہ ہے کہ اس آفت کے دوران پانی نہیں تھا۔ دراصل آگ لگنے کے دوران پتہ چلا کہ فائر ہائیڈرنٹ میں پانی نہیں تھا۔
واضح رہے کہ آگ لگنے کے اس واقعہ میں دیگر کئی مشہور شخصیات کی طرح ہالی ووڈ اسٹار میل گبسن کو بھی بڑا نقصان پہنچا۔ مالیبو میں ان کا 15 ملین ڈالر کا گھر جل کر راکھ ہو گیا۔
سازشی تھیوری کے حامی لوگوں کی توجہ کھجور کے درختوں پر مرکوز کر رہے ہیں۔ وہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ گاڑیاں اور گھر جل گئے لیکن درخت کیسے کھڑے رہے۔ تاہم ماہرین نے ان سوالات کا جواب دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کھجور کے درخت اپنی موٹی چھال اور زیادہ نمی کی وجہ سے جنگل کی آگ سے بچ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر جنگلات میں لگنے والی آگ میں گرمی زمینی سطح پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان درختوں میں زیادہ اونچائی پر موجود پتے بچ جاتے ہیں۔ اس کے باوجود کئی درخت بری طرح جل چکے ہیں۔