یسوع مسیح کے مقدس دل کےچرچ میں ایک قاتل(سفرنامہ سپین)

حسنین نازش ؔ:
قسط.6

اگر ہم بارسلونا کے کلیسیائی ورثے کا تجزیہ کریں تو ہم تبیڈابو کے چرچ کو شہر کے خوبصورت ترین گرجا گھروں کی فہرست میں شامل نہیں کریں گے۔ یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کیونکہ اسی شہر میں سرگادہ فیمیلیا یا سانتا ماریا جیسی شاندار تعمیرات اور دلکش چھوٹے بڑےگرجا گھر، جیسے Església de Sant Felip Neri، گوتھک کوارٹر کے مرکز میں واقع ہیں-
تاہم، یسوع مسیح کے مقدس دل کا چرچ زیادہ توجہ کا مرکز ضرور ہے کیونکہ یہ کولسیرولا پہاڑی سلسلے میں سب سے اونچے پہاڑ، تبیڈابو کی چوٹی پر واقع ہے۔ اس لیے بارسلونا شہر کی گلیوں سے بھی اسے واضح طور پر دیکھاجا سکتا ہے۔ جب کہ چرچ کے ہاس پہنچ کر قتلونیہ کے دارالحکومت کے کچھ انتہائی خوبصورت نظاروں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں-
بارسلونا آمد کے اولین گھنٹوں ہی میں ہمارے غیبی گائیڈ شعیب نے حکم صادر کیا کہ اس کے پسندیدہ تفریحی اور سیاحتی مقام ٹمپل آف دی سیکرڈ ہارٹ آف جیسس کی سیر کی جائے۔
ہماری گاڑی شہر سے نکل کر مضافاتی سڑک کی جانب ہو لی۔ بل کھاتی ہوئی سڑک مضافات سے نکل کر قصبوں کی طرف آ نکلی ۔سڑک کے دائیں بائیں بہت خوبصورت گھر بنے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں گھنے درخت مسافروں اور سیاحوں کے لیے تسکین کا سماں کیے ہوئے تھے ۔سڑک کبھی تو محسوس اور کبھی غیر محسوس طریقے سے آہستہ آہستہ اوپر کو اٹھ رہی تھی یعنی ہم پہاڑوں کے بیچوں بیچ اونچائی کا سفر طےکر رہے تھے ۔ گھروں کی دیواروں سےانگوروں کی بیلوں سے انگور لٹکتے صاف دکھائی دے رہے تھے- کہیں زیتون کے درخت سر جھائے کھڑے تھے ۔
موسم ابر آلود تھا-تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہلکی بارش ہو جاتی تو کسی اگلے موڑ پر بارش کا نام و نشان تک نہ ہوتا ۔ہمیں ڈر لاحق ہوا کہ کہیں بلندی پر جاتے ہوئے ہمیں شدید بارش کا سامنا نہ ہو اور یہ نہ ہو کہ ہمارا آج کا دن ضائع ہو جائے- ہم چرچ کو جس انداز اور زاویے سے دیکھنا چاہ رہے تھے شاید وہ نہ دیکھ پائیں ۔ پورے یورپ کے موسم کا یہی حال ہے۔ یہاں بارش کا کوئی بھروسہ نہیں- ایک لمحے میں بادل اکٹھے ہوتے ہیں اور برس کر یہ جا وہ جا ۔
پہاڑوں کی اونچائی سے بارسلونا کے خوبصورت نظارے دیکھنے کو ملے۔مکانوں کی سرخ سرخ چھتیں نہایت مسحور کن نظارے پیش کر رہی تھیں۔
بھوک سے ہمارے معدوں میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ اس لیے بل کھاتی ہوئی سڑکوں کے ایک موڑ پر گاڑی روک کر قصبے کے واحد گراسری سٹور میں داخل ہوئے۔ گراسری سٹور کے کیش کاونٹر پر کھڑی نوجوان ہسپانوی لڑکی نے مسکراتے ہوئے ہمیں خوش آمدید کہا۔
ہم نے سارا گروسری سٹور چھان مارا لیکن ہمیں سوائے تازہ پھل اور سبزیوں کے ہمارے ہاتھ کوئی حلال شے کھانے کو نہ لگی۔ اس لیے تربوز کے چند قتلے اور انگوروں کے چند گچھے خریدے۔ البتہ تازہ کافی کے دو کپ اس سہانے موسم کی اثر انگیزی کو دو چند کرنے کی غرض سے ہمارے ہاتھوں میں اس ہسپانوی دیہاتی لڑکی نے تھما دئیے جن کے یورو ہم اسے پہلے ہی ادا کر چکے تھے۔سٹور سے باہر نکل کر گاڑی کے ہاس کھڑے ہو کر کافی کے مزے لیے۔ کافی پینے کے بعد سفر پھر شروع ہوا۔کچھ دیر بعد ہم پہاڑی کے بلند ترین مقام کے قریب پارکنگ ایریا میں پہنچ گئے۔ یہاں گاڑی پارک کی اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے
چرچ کی جانب بڑھنے لگے۔
تھوڑی دیر چلنے کے بعد ہم تبیڈابو پہاڑ کی چوٹی پر یسوع مسیح کے مقدس دل کے چرچ کے پاس پہنچ گئے۔
mple Expiatori del Sagrat Cor de Jesús
چرچ سے منسلک ایک تفریحی پارک کے قریب ہم آن کھڑے ہوئے۔ یہاں سے پورا بارسلونا شہر نہایت خوب صورت نظر آ رہا تھا- اس بلندی پر پہنچ کر تو واقعی بقول شاعر ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے ۔۔۔
ع میرے قدموں تلے زمانہ ہے
شہر پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال کر ہم نے چرچ کے صدر دروازے کا رخ کیا۔
چرچ کے بیرونی حصے کو صدر دروازے سے دیکھتے ہی اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ بارسلونا کی سب سے حیران کن مذہبی عمارتوں میں ٹیبیڈابو کی اس پہاڑی کا یہ چرچ ہے جسے باضابطہ طور پر ایکسپی ایٹری چرچ آف دی سیکرڈ ہارٹ آف جیسس کہا جاتا ہے۔ یہاں سے سطح سمندر سے 516 میٹر بلندی کی بدولت شہر کے ناقابل یقین نظاروں سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔ اس چرچ میں مقدس دل کا ایکسپایٹری ٹیمپل رکھا گیا ہے۔ یہ معمار اینریک ساگنیئر آئی ولاویکچیا کا ہی کام ہےجو 1906 میں شروع ہوا اور 1961 میں اس کے بیٹے جوزف ماریا ساگنیئر آئی وِڈال نے مکمل کیا۔ اس طرح یہ مندر نو بازنطینی، نو رومنیسک اور نو گوتھک طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ بجا طور پر عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا ہے- اس کے نچلے حصے میں ایک کرپٹ اور اوپری حصے میں چرچ شامل ہے۔


پہاڑ کی چوٹی پر چرچ بنانا کسی حد تک دلچسپ ہے- اس معاملے میں ماؤنٹ ٹیبیڈابو پر انیسویں صدی کے آخر میں اس علاقے میں ایک کیتھولک بیسیلیکا کی تعمیر کے خیال پر پہلے ہی غور کیا جا رہا تھا- اس مقام پر کیتھولک بیسیلیکا تعمیر کرنے کےاسباب میں یہاں پروٹسٹنٹ چرچ یا ہوٹل کسینو کی تعمیر کو روکنا بھی تھا جوشہری انتظامیہ کے مجوزہ منصوبوں میں شامل تھے ۔ اس طرح بورڈ آف کیتھولک نے یہاں زمین خرید لی۔ انہوں نے اسے اطالوی پادری جان بوسکو جسے سیلسیئن ڈان بوسکو بھی کہتے ہیں کے حوالے کر دیا۔ اس کے ساتھ، خیال آیا کہ ایک ہیکل تعمیر کیا جائے جو یسوع کے مقدس دل کو ظاہر کرتا ہو۔
اس طرح 1886 میں ایک نو گوتھک ہرمیٹیج تعمیر کیا گیاجس کی حمایت سیلسیئن، جان بوسکو کی جماعت نے کی۔ چیپل کی اونچائی آٹھ میٹر ہے۔ یسوع مسیح کے مقدس دل کی تصویر اندر رکھی گئی ہے۔
مندر کے احاطے کے تعمیراتی منصوبے میں دسمبر 1902 تک تاخیر ہوئی، جب کام شروع ہوا، جو 1961 تک جاری رہا۔ اسی سال اکتوبر میں پوپ جان XXIII نے مندر کو باسیلیکا کا خطاب دیا۔
یسوع مسیح کےمقدس دل کے چرچ کی تعمیر کا ڈیزائن اینرک ساگنیئر نے بنایا تھا- یہ ایک نو گوتھک طرز کا یادگار چرچ ہے، جس پر سیکرڈ ہارٹ کے کانسی کے مجسمے کا تاج پہنایا گیا ہے۔
بیسیلیکا کا ایک مخصوص ڈیزائن ہے جودوہری اونچائی والے گرجا گھر پر مشتمل ہے – جن فنکاروں نے اس منصوبے پر کام کیا ان میں مجسمہ ساز فریڈرک ماریس، الفونس جوئیل اور موزیکسٹ لوئس برو شامل تھے۔ چرچ کے اوپری حصےمیں داغدار شیشے کی کھڑکیوں میں حضرت مریم کی تصویریں نصب ہیں جو کیتھولک دنیا میں وسیع پیمانے پر مشہور ہیں – جیسے لیڈی آف گواڈیلوپ (میکسیکو) اور لیڈی آف چیریٹی آف ایل کوبرے (میکسیکو)۔
باہر، چرچ کے ارد گرد ایک قسم کا قلعہ بند دیوار ہے جو Montjuic پتھر سے بنا ہوا ہے۔ اس کے اوپر، ہر طرف دوہری سیڑھیوں کے ساتھ نو گوتھک چرچ۔ کمپلیکس کو ایک کرپٹ اور چرچ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ خفیہ خانہ سب سے نیچے اور چرچ سب سے اوپر واقع ہے۔ چرچ کے اوپر ایک گنبد ہے جس پر مقدس دل کی تصویر کا تاج ہے۔ ابتدائی طور پر یہ کام مجسمہ ساز فریڈرک ماریس نے بنایا تھا، لیکن اسے 1936 میں تباہ کر دیا گیا تھا۔ اس طرح، 1950 میں مجسمہ ساز جوزف میرٹ نے اسے ایک اور مجسمے سے تبدیل کر دیا تھا۔ مندر کے ساتھ 1886 میں بنایا گیا ہرمیٹیج ہے۔

چرچ کے اہم ترین مجسمے کی کہانی واقعی دلچسپ ہے۔ اصل مجسمہ 1935 میں مکمل ہوا تھا۔ یہ آٹھ میٹر اونچا تھا، جو اس وقت اسپین کا سب سے بڑا مجسمہ تھا۔ اسے چرچ کے گنبد پر رکھنے سے پہلے، ہسپانوی خانہ جنگی شروع ہوئی اور 1936 میں اسے پگھلا کر جنگی سامان بنایا گیا۔
جب جنگ ختم ہوئی تو سیلسیوں نے اصل مجسمہ کی نقل تیار کی۔ اس بار ساڑھے سات میٹر طویل۔ پہلے تو اسے مندر کی چھت پر رکھا گیا تھا، لیکن اسے 1961 میں اوپر لے جایا گیا تھا۔ یسوع کی تصویر اس کے دل کو دکھانے کے لیے چوغے کو کھلا دکھاتی ہے۔ اس کے بازو بارسلونا شہر تک تحفظ کی علامت کے طور پر بڑھائے گئے ہیں۔
چرچ کے اوپری حصے کا چرچ 1951 میں مکمل ہوا تھا۔ تاہم، ٹاورز بعد میں بنائے گئے تھے اس لیے یہ کام 1961 تک مکمل نہیں ہوسکا تھا۔ نیلے بھوری رنگ کے پتھر سے بنی اس عمارت میںایک مرکزی اور چار زیریں ٹاور ہیں جہاں بارہ پیغمبروں کے مجسمے رکھے گئے ہیں۔
مرکزی اگواڑے میں تین فرشتوں کے مجسمے ہیں۔ مائیکل کی شکل، اوپری حصے میں سینٹ جان بوسکو کی شکل اوراس کے علاوہ، بائیں دروازے میں حضرت عیسی کے سینٹ ٹریسا کا مجسمہ اور دائیں دروازے میں سینٹ مارگوریٹ میری ایلاکوک کا مجسمہ دیکھا جا سکتا ہے۔

ہم چرچ کے اندرونی حصے میں داخل ہوئے۔ چرچ کا اندرونی حصہ تین نافوں میں تقسیم ہے۔ وہ داغدار شیشے کی کھڑکیوں، نیم سرکلر ایپس اور چار گلاب کی کھڑکیوں سے مکمل ہیں جو اگلی طرف دیکھی جا سکتی ہیں۔ اونچی قربان گاہ پر بڑا مصلوب سب سے نمایاں عناصر میں سے ایک اہم عنصر ہے۔
اگواڑے میں کالموں پر تین نیم سرکلر محرابیں ہیں جو ایک بڑی محراب کے اندر ہیں جو سپین کے مقدس دل کی تعظیم کی ایک تصویر کے ساتھ سجا ہوا ہے۔ تاہم ابتدائی طور پر ڈینیئل زولوگا کا ایک اور موزیک بھی یہاں سجایا گیاتھا۔ یہ تثلیث کی نمائندگی کرتا تھا، لیکن خانہ جنگی کے دوران تباہ ہو گیا تھا۔
کریپٹ کے اندر، خلا کالموں سے الگ پانچ نافوں سے بنا ہے۔ کریپٹ کے والٹس اور دیواروں کو الابسٹر سے ڈھانپ دیا گیا ہے یا موزیک کی سجاوٹ ہے۔ یہاں بیان کیے گئے مناظر قربان گاہوں کی لگن اور باسیلیکا کی اپنی تاریخ سے متعلق ہیں۔ کریپٹ کے ذریعے آپ پرپیچوئل ایڈوریشن کے چیپل تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ایک چیپل ہے جو 1940 کا ہے اور اسی پہاڑ سے تراشی گئی تھی۔
ہمیں بتایا گیا کہ چرچ بند ہونے میں۔تھوڑا وقت رہ گیا ہے اگر چرچ کے میناروں کی بلندی پر جا کر بارسلونا شہر کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں تو جلدی کیجیے۔ انتظامیہ کے تعلقات عامہ کے آفیسر نے ہمیں لفٹ کی راہ دکھلائی۔
چرچ کے اندر کی یہ لفٹ چرچ کی چھت اور بلند ترین ٹاور تک لے جاتی ہے لیکن اس کے لیے ہمیں اپنی جیبوں سے چند یورو ادا کرنا پڑے۔ ہمارے ساتھ لفٹ میں دو انگریز ادھیڑ عمر خواتین میری اور جولین بھی داخل ہوئیں۔ صاحب سلامت کے بعد علم ہوا کہ وہ دونوں فیصل رحمان کی کاونٹی سے محض ایک گھنٹہ دوری پر رہتی ییں۔ اس لیے گفتگو کا سلسلہ چرچ کی خوبصورتی کی بجائے انگلستان کے موسم اور ایک دوسرے کی کاونٹیوں کے گردا گرد ہی گھومتا رہا۔میں ان کی گفتگو میں صرف ہاں ہوں ہی کر سکتا تھا۔ سو کیا۔
یہ دونوں خواتین اپنی روحوں کی تسکین کی غرض سے اس چرچ کا دورہ کر رہی تھیں۔ ان دونوں کا عقیدہ تھا کہ چونکہ یہ چرچ یسوع مسیح کے قلب کی نمائندگی کرتا ہے اس لیے دل پاکیزگی کے لیے اس مقام سے بہتر کوئی دوسرا مقام ہو ہی نہیں سکتا۔
تھوڑی دیر بعد ہم چرچ کے بلند ترین مینار پر پہنچ گئے۔ لفٹ سے اترنے کے بعد تنگ سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے ہم مینار ہی کے کشادہ صحن میں آنکلے۔ یہاں ایک طرف آٹھ میٹر لمبا یسوع مسیح کا ہیبت ناک مگر مسکراتا ہوا مجسمہ انتہاٙی قریب سے دیکھنے کو ملا تو دوسری جانب بارسلونا شہر کامنظر دکھائی دیا۔ بادلوں سے ہلکی ہلکی پھواریں اترنے لگیں تھی۔ دور سے بارسلونا کی سڑکیں ایسے نظر آ رہی تھیں جیسے تارکول کی پتلی سے لکیریں عمودی اور افقی اطراف میں قرینے سے بکھیر دی گئی ہوں۔ یہاں سے ہم نے سارے بارسلونا کا گھوم گھام کرنظارہ لیا۔ تصاویر لیں۔

سچ پوچھیے تو اس قدر بلندی سے نیچھے دیکھ کر سر چکرا کر رہ گیا۔ وہ تو شکر کہ حفاظتی بند ہمارے سینوں کو چھو رہے تھے وگرنہ میں تو زمین پر ہی گر جاتا۔ میرا خیال یا پھر وہم ہے کہ مجھے ہائیٹ فوبیا ہے۔
بارسلونا شہر کے بلند ترین پہاڑی پر کھڑے حضرت عیسی علیہ السلام کے مجسمے کے ساتھ کھڑے ہو کر ہم نے بارسلونا شہر کا نظارہ کیا- ایسا محسوس ہوا رہا تھا کہ سارے کا سارا جہان ہمارے قدموں تلے ہے۔ اس وقت بارسلونا شہر کی بلند ترین عمارتیں بھی تنکوں کی طرح ہمارے قدموں کے نیچے تھیں ۔ شہر کی رنگین عمارتوں کے سرخ، نیلے، سفید اور بھورے رنگ کی چھتیں بادلوں میں گھری ہوئی نہایت بھلی لگ رہی تھیں ۔ ہم اس پہاڑی اور اس مجسمے کے ساتھ اس چرچ کی بلندی اور رفعتوں کے مزے اٹھا رہے تھے-
اب بارش کی شدت میں اضافہ ہو چکا تھا۔ اوپر مزید ٹھہرنا مشکل ہو رہا تھا۔اس لیے ہم چاروں نےانہی تنگ زینوں سے نیچے اتر کر لفٹ کے مقام تک پہنچے اور پھر لفٹ سے ہوتے ہوئے ایک بار پھر چرچ کے مرکزی ہال تک پہنچے ۔
یہاں پریینگ ہال کے ایک کونے میں ایک ڈیسک پر بیٹھا ایک نوجوان زار و قطار رو رہا تھا- اس وقت چرچ کی مرکزی احاطے میں ہمارے سوا کوئی موجود نہیں تھا- اس لیے ہم چاروں اس نوجوان کی طرف بڑھتے گئے- اس سے اس کے رونے کا سبب پوچھنے لگے- دونوں اس سلسلے میں پیش پیش تھیں- انہوں نے نہ صرف اس کو گلے لگایا بلکہ اس کے ماتھے اور گالوں کو چومااور اس سے اس کے رونے کا سبب دریافت کیا ۔
نوجوان کی ہچکیاں بندھ رہی تھیں وہ زار و قطار روئے جا رہاتھا۔ بالاخر کچھ دیر بعد ہماری کوشش کامیاب ہوئی –
نوجوان نے اپنے رونے کا سبب بیان کرنا شروع کیا-
اس کا کہنا تھا کہ دو برس پہلے وہ چور اچکوں کے ایک گروہ میں شامل ہو گیا ۔ چھوٹی موٹی چوریاں کرتا- اسی دوران ایک دفعہ ریل کی پٹڑی کے قریب جاتے ہوئے اسے ایک بڑھیا نظر اآئی جس کے کاندھے پر ایک مہنگے برینڈ کا سفری بیگ الٹکا ہوا تھا ۔بڑھیا شکل و صورت اور اپنے کپڑوں سے خاصی امیر لگ رہی تھی- اس لیے اسے یہ احساس ہوا کہ ہونا ہو اس بیگ میں اچھی خاصی رقم ہوگی اور ممکن ہے کہ کوئی زیورات وغیرہ بھی ہوں ۔اس لیے میں نے بھاگ کر اس سے اس کا بیگ چھیننا چاہا- بڑھیا کو بروقت علم ہو گیا تھا- اس نے مزاحمت کی ۔اس کے مزاحمت کرنے کے عمل میں کچھ لمحے لگ گئے – بالاخر وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوا- اس نے جوں ہی بیگ اپنی گرفت میں لے کر کھینچا اور بڑھیا کو دھکا دیا۔ بڑھیا پٹڑی پر جا گری- اسے بیگ سے غرض تھی اس لیے بیگ ہاتھ آتے ہی وہ فورابھاگ گیا- اسے احساس ہی نہ ہوا کہ اگلے کچھ لمحوں بعد ٹرین آئی اور بڑھیا کو کچلتے ہوئے آگے بڑھ گئی –
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بڑھیا کے جسم کے ٹکڑے ہو چکے تھے- وہ چور اچکا ضرور تھا لیکن قاتل نہیں تھا اور نہ ہی وہ کسی کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ اج دو برس ہو گئے ہیں اور ان دو برسوں میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں جو اس نے سکھ اور چین سے گزارا ہو ۔ وہ مختلف چرچ مندر مسجدوں اور ایسی ہر ہر جگہ اور مقام پر گیا جہاں اسے سکون واطمینان مل سکے لیکن اس کی ہر کاوش ناکام رہی۔ بالاخر اسے اس کے قریبی چرچ کے پادری نے کہا کہ وہ اس چرچ میں جاؤ جو کہ حضرت یسو ع علیہ السلام کے دل کی نمائندگی کرتا ہے ۔ تمہارے دل کو اطمعنان اور قرار اگر کہیں سے حاصل ہو سکتا ہے تو اس چرچ میں جا کر ہی حاصل ہوگا ۔ وہ۔اس لیے یہاں آکر اپنے گناہ کا اعتراف کر رہا ہے۔
ہم سب نے اس کو ڈھارس دی اور اسے یہی کہا کہ تمیں احساس گناہ ہے یہ تمہارے گناہ مٹانے کے لیے کافی ہے -دوسرا یہ کہ تمہارا اگر گناہ بنتا ہے تو صرف چوری کی حد تک۔ تم نے بڑھیاکی جان ،جان بوجھ کر نہیں لی بلکہ وہ تو ایک حادثہ تھا جو کہ تمہارے ہاتھوں سے سرزد ہونا تھا سو ہو گیا ۔
ہم طفل تسلیاں دیتے ہوئے چرچ سے باہر آ گئے ۔
جاری ہے….

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں