لاہور: یورپ جانا نوجوانوں کی اکثریت کا خواب بن چکا ہے، اپنے انہیں خوابوں کو پورا کرنے کیلئے پاکستانیوں سے سمیت مختلف ممالک کے نوجوان غیر قانونی طریقوں سے سفر کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
یوں تو ڈنکی لگانے کا یہ سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن گزشتہ 2 سال کے دوران ان واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، دو روز قبل یورپ جانے کا خواب مزید 44 زندگیاں نگل گیا ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 14 دسمبر 2024 کو ہونے والے یونان کشتی حادثے میں بھی پاکستانی نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
26 فروری 2023 کو اٹلی کے ساحل پر ہونے والے کشتی حادثے میں دو پاکستانی جاں بحق ہوئے، اسی دن لیبیا میں بن غازی کے قریب ہونے والے کشتی حادثے میں 7 پاکستانی جاں بحق ہوئے، دو دن بعد 28 فروری 2023 کو لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی حادثے کا شکار ہوئی جس میں 4 پاکستانی جان گنوا بیٹھے۔
14 جون 2023 کو یونان کے قریب کشتی حادثے میں تقریباً 300 پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، اکتوبر 2024 کو موریطانیہ سے سپین جانے والی کشتی حادثے میں 4 پاکستانی جاں بحق ہوئے، 14 دسمبر 2024 کو یونان میں کشتی حادثے میں 40 پاکستانی تارکین وطن جاں بحق ہوئے اور اب ایک بار پھر 44 پاکستانی میڈرڈ کشتی حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔
غیر قانونی طور پر پاکستان سے یورپ جانے والے افراد میں جن اضلاع کے لوگ بڑی تعداد میں شامل ہیں، ان میں گجرات، گوجرانوالہ، منڈی بہاؤالدین اور سیالکوٹ سرفہرست ہیں۔انسانی سمگلنگ میں ملوث ایف آئی اے کے 31 افسران کو شامل تفتیش کرتے ہوئے 18 افسران کو صرف ضلع بدری کی سزائیں دی گئیں۔
اس کے علاوہ دسمبر 2024 میں ہونے والے یونان کشتی حادثے کے بعد لاہور، کراچی، گوجرانوالہ، گجرات، فیصل آباد، پشاور اور گوادر میں مختلف کارروائیوں کے دوران 29 انسانی سمگلرز کو حراست میں لیا گیا لیکن ہمیشہ کی طرح یہ کارروائیاں بھی محض ایک کاغذی کارروائی لگتی ہیں کیونکہ 2023 میں 300 سے زائد پاکستانیوں کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا تو ایف آئی اے نے 197 مقدمات درج کر کے 144 مبینہ ملزمان کو گرفتار تو کیا مگر صرف دو ایجنٹس کو جرمانے اور قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سارے کھیل میں قانونی سقم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس دن میڈرڈ حادثہ پیش آیا اسی روز فیصل آباد ایف آئی اے کے 18 ان اہلکاروں کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا جن پر گزشتہ ماہ یونان کشتی حادثہ کیس کے سلسلے میں معاونت فراہم کرنے کا الزام تھااس سے قبل رواں ماہ ہی اس کیس سے منسلک دیگر 9 ملزمان کو عدالت نے سماعت کے بعد مقدمے سے خارج کرنے کا حکم دیا تھا۔
ایک جانب کمزور قوانین تو دوسری جانب انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے غیر موثر حکومتی اقدامات کی وجہ سے انسانی سمگلنگ کی کھلم کھلا ترغیب کیلئے آج بھی متعدد ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ڈنکی کے نت نئے طریقوں کی تشہیر کی جا رہی ہے، یوٹیوب، فیس بک اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر ڈنکی لگا کر کامیابی سے پہنچنے والے افراد کی ویڈیوز پوسٹ کر کے دیگر افراد کو جال میں پھنسایا جا رہا ہے۔
آئے روز رونما ہونے والے ان حادثات نے انسانی سمگلنگ جیسے مکروہ دھندے میں ملوث عناصر کیخلاف حکومتی اقدامات پر کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔کیا موجودہ قوانین اور ان کے تحت دی جانے والی سزائیں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے کافی ہیں؟
چین، ایران، ویتنام،جیسے ممالک میں انسانی سمگلنگ پر قابو پانے کیلئے سزائے موت جیسے سخت قوانین موجود ہیں لیکن پاکستان میں پریوینشن آف سملنگ آف مائیگرنٹس ایکٹ 2018 کے تحت محض پانچ سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہے، ’’کیا پاسپورٹ کے اجراء سے قبل حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوئی چھان بین کی جاتی ہے؟‘‘
این سی ایچ آر کی رپورٹ کے مطابق غیرقانونی طور پر ترک وطن کرنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق گجرات، گوجرانوالہ، منڈی بہاؤ الدین، سیالکوٹ اور فیصل آباد سے ہے، ’’کیا پاسپورٹ کے اجرا سے قبل ان اضلاع سے تعلق رکھنے والے افراد کی مالی حیثیت یا دیگر کوائف سے متعلق کوئی جانچ پڑتال کی جاتی ہے؟‘‘
پاکستان سے ڈنکی مارنے والے زیادہ تر افراد ترکیہ، ایران اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کے ویزے لگواتے ہیں، ’’کیا حکومت نے ان ممالک کے سفارتخانوں کے ساتھ انسانی سمگلنگ کی روک تھام کا کوئی نظام وضع کیا ہے؟‘‘
ڈنکی مار کر یورپ جانا وسطی پنجاب کے چند اضلاع میں ایک رواج بن چکا ہے جہاں پر تقریباً ہر گھر سے کوئی نہ کوئی فرد اس طریقہ سے یورپ جا چکا ہے اور ان خاندانوں کی خوشحالی دیکھتے ہوئے آنے والی نئی نسل ڈنکی کے خواب دیکھنا شروع کر دیتی ہے۔
بھاری رقوم کی ادائیگیوں کے عوض محض سنہرے مستقبل کے خواب نوجواںوں کو سیدھا موت کی وادی میں لے جانے کا سبب بن رہے ہیں، افسوس ایک بار پھر حکومتی ادارے حرکت میں آئیں گے، سخت کارروائی کے اعلانات ہوں گے، چند گرفتاریاں بھی ہوں گی، پھر ضمانتیں ہوں گی اور اگلے سانحے کا انتظار کیا جائے گا۔