2050 تک دنیا کے 60 فیصد بالغ افراد موٹاپے کا شکار ہوں گے، تحقیق

ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر حکومتوں نے اقدامات نہ کیے تو 2050 تک دنیا بھر میں تقریباً 60 فیصد بالغ افراد اور ایک تہائی بچے زائد وزن یا موٹاپے کا شکار ہوجائیں گے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق لانسیٹ میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق میں 204 ممالک کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے صحت کے حوالے سے اس صدی کے بڑے مسئلوں میں سے ایک کی خوفناک تصویر پیش کی گئی ہے۔

امریکا میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلیوایشن (آئی ایچ ایم ای) سے تعلق رکھنے والی اس تحقیق کی سربراہ ایمانوئلا گاکیدو نے ایک بیان میں کہا کہ زیادہ وزن اور موٹاپے کی غیر معمولی عالمی وبا ایک سنگین المیہ اور ایک بہت بڑی سماجی ناکامی ہے۔

تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں موٹاپے کا شکار افراد کی تعداد 1990 میں 92 کروڑ 90 لاکھ تھی جو 2021 میں بڑھ کر 2 ارب 60 کروڑ ہو گئی۔
محققین کا اندازہ ہے کہ کوئی سنجیدہ تبدیلی نہ آئی تو 15 سالوں میں 3.8 ارب بالغ افراد یا 2050 میں عالمی بالغ آبادی کا تقریباً 60 فیصد زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار ہوگی۔

محققین نے متنبہ کیا ہے کہ دنیا کا صحت کا نظام شدید دباؤ کا شکار ہو جائے گا اور اس وقت تک دنیا کے تقریباً ایک چوتھائی موٹاپے کے شکار افراد کی عمر 65 سال سے زیادہ ہو جائے گی، انہوں نے دنیا بھر میں بچوں اور نوجوانوں میں موٹاپے میں 121 فیصد اضافے کی پیش گوئی بھی کی۔

محققین نے خبردار کیا ہے کہ 2050 تک موٹاپے کا شکار نوجوانوں میں سے ایک تہائی شمالی افریقہ، مشرق وسطیٰ، لاطینی امریکا اور کیریبین میں رہ رہے ہوں گے۔

آسٹریلیا کے مرڈوک چلڈرن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والی اس تحقیق کی شریک مصنفہ جیسیکا کیر کا کہنا ہے کہ ابھی اس پر عمل کرنے میں دیر نہیں ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’عالمی خوراک کے پائیدار نظام کے اندر خوراک کو تبدیل کرنے کے لیے زیادہ مضبوط سیاسی عزم کی ضرورت ہے‘۔

مطالعے میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے زیادہ تر موٹے یا زائد وزن والے بالغ افراد صرف 8 ممالک میں رہتے ہیں جن میں چین، بھارت، امریکا، برازیل، روس، میکسیکو، انڈونیشیا اور مصر شامل ہیں۔

یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کے محقق تھورکلڈ سورینسن نے کہا کہ اگرچہ ناقص غذا اور آرام دہ طرز زندگی واضح طور پر موٹاپے کی وبا کی وجہ ہیں، لیکن اس کی بنیادی وجوہات کے بارے میں شکوک و شبہات موجود ہیں۔

دی لانسیٹ میں شائع ہونے والے ایک تبصرے میں انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر سماجی طور پر محروم گروہوں میں موٹاپے کی طرف ’مستقل اور غیر واضح رجحان‘ پایا جاتا ہے۔

یہ تحقیق آئی ایچ ایم ای کے گلوبل برڈن آف ڈیزیز اسٹڈی کے اعداد و شمار پر مبنی ہے، جو دنیا بھر کے ہزاروں محققین کو اکٹھا کرتی ہے اور اسے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی مالی اعانت حاصل ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں