30 جنوری: موہن داس کرم چند گاندھی کا قتل

موہن داس کرم چند گاندھی جنہیں ہندوستان میں بابائے قوم کا درجہ حاصل ہے، انہیں 30 جنوری 1948 کو برلا ہاؤس (اب گاندھی اسمرتی)، نئی دہلی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ برلا ہائوس میں گاندھی ہر شام دعائیہ اجلاس میں شرکت کرتے تھے۔ اس دن منو گاندھی اور ابھا گاندھی، جو ان کی پوتیاں تھیں، بھی ان کے ساتھ تھیں۔

جیسے ہی گاندھی جلسہ گاہ پہنچے، ہندو مہاسبھا سے تعلق رکھنے والا ایک انتہا پسند ہندو شخص نتھو رام گوڈسےاچانک ہجوم سے باہر آیا اور ہاتھ جوڑ کر سلامی کے انداز میں گاندھی جی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھ پاتا، گوڈسے نے 9 ایم ایم کا اپنا چھپا ہوا بیریٹا ایم 1934 پستول نکالا اور گاندھی کے پیٹ اور سینے میں تین گولیاں ماریں۔گولی لگنے کے بعد گاندھی زمین پر گر پڑے اور ان کے منہ سے آخری الفاظ “ہے رام” نکلے۔

نتھو رام پاکستان بننے اور برصغیر کی تقسیم کا ذمہ دار موہن داس گاندھی کو سمجھتا تھا۔کہ اُس نے گاندھی پر اس خونریزی کی ذمہ داری بھی عائد کرنے کی کوشش کی جو 1947 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد انڈیا اور پاکستان کے وجود میں آنے کے وقت ہوئی۔اس نے گاندھی پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے مسلم نواز اور پاکستان کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے بہت سے ہندوؤں کو دھوکہ دیا۔اسی وجہ سے اس نے گاندھی کے قتل کا منصوبہ بنایا۔
گاندھی جی کو گولی مارنے کے بعد موقع پر موجود بھیڑ میں چیخ و پکار مچ گئی۔ اس دوران گاندھی جی کے ذاتی ڈاکٹر ڈاکٹر ایشیلا نائر نے موقع پر ہی ان کی نبض چیک کی، لیکن تب تک گاندھی کی موت ہوچکی تھی۔ وہاں خود،ناتھورام گوڈسے کو موقع پر ہی پکڑ لیا گیا۔

نتھو رام کا تعلق بھارت کی مذہبی انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ اُس کی ماں بھی آر ایس ایس کی سرگرم کارکن تھی ۔تاہم آر ایس ایس نے نتھو رام اور گاندھی کے قتل سے لاتعلقی ظاہر کی۔واضح رہے کہ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز اسی تنظیم سے کیا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم کے بارے میں بھی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک کٹر ہندو ہیں۔ ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ملک کی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور مسیحیوں کے لیے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔
گاندھی کے قتل کے فوراً بعد یہ افواہ اڑا دی گئی کہ انھیں کسی مسلمان نے ہلاک کیا ہے۔ اس افواہ کے بعد دہلی اور ممبئی میں فسادات پھوٹ پڑے مگر جب صحیح صورتحال کا علم ہوا تو یہ فسادات ٹھنڈے پڑ گئے۔
قتل کے ایک سال بعد گوڈسے اور قتل کی سازش میں ملوث اس کے ساتھی کار نارائین آپٹے کو مجرم قرار دیا گیا اور پندرہ نومبر 1949ء کو ان دونوں کو پھانسی دے دی گئی۔

گوڈسے نے 15 نومبر 1949 کو پھانسی پر چڑھنے سے پہلے، آر ایس ایس کی دعا کے پہلے چار جملے پڑھے جو اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ تنظیم کا ایک فعال رکن تھا۔
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ مہاتما گاندھی کے قتل میں عالمی ہاتھ ملوث تھے بہرحال یہ واقعہ ہندوستانی تاریخ کا انتہائی افسوسناک لمحہ تھا۔اس دن کو ہندوستان میں بابائے قوم مہاتما گاندھی اور دیگر آزادی پسندوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے “یوم شہدا” کے طور پر منایا جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں