’دی گوٹ لائف‘ اور کفالت کا نظام: حقیقی واقعے پر مبنی انڈین فلم سعودی عرب میں بحث کا موضوع

نیٹ فلکس پر دکھائی جانے والی انڈین فلم ’دی گوٹ لائف‘ کی کہانی نے سعودی عرب میں ہنگامہ برپا کر دیا ہے جس میں سعودی عرب کے کفالت کے نظام پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ کیرالہ کی ملیالم فلم انڈسٹری کی جانب سے بنائی جانے والی ’آدوجی ویتھم: دی گوٹ لائف‘ ایک اصل واقعے پر مبنی فلم ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے اچھے مستقبل کی تلاش میں سعودی عرب پہنچنے والا ایک شخص صحرا میں مویشی چرانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کے کفالت کے نظام کے تحت ملازمت کے خواہشمند غیر ملکی شخص کا ایک سعودی شہری کفیل ہوتا ہے جو اس کی رہائش اور کھانے پینے سمیت دیگر چیزوں کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
فلم سازوں کو شاید اس بات کا علم تھا کہ ان کی کہانی سعودی عرب میں ممکنہ طور پر تنازعے کا باعث بن سکتی ہے اور اسی لیے ہدایت کار نے فلم کے آغاز میں ایک بیان دکھایا ہے کہ ’فلم کا مقصد کسی ملک، لوگوں، معاشرے یا نسل کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہے۔‘
تاہم اس انڈین فلم کی وجہ سے ناقدین اور خلیجی سوشل میڈیا صارفین کے درمیان تنازع پیدا ہو گیا جب کچھ لوگوں نے سعودی عرب میں کفالت کے نظام کے تصور کو پیش کیے جانے کے طریقے پر اعتراض کیا تو بعض لوگوں نے اسے ایک تخلیقی کام کے طور پر دیکھا۔
اسامہ گویش نامی صارف نے ایکس پلیٹ فارم پر اس فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’اس انڈین فلم نے سعودی عرب کو غصہ دلایا ہے۔‘
انھوں نے لکھا ہے کہ ’یہ سچی کہانی کفالہ نظام کی خامیاں سامنے لائی ہے لیکن سعودی حکام غصے میں بھی ہیں۔‘
اسامہ نے دعوی کیا کہ ’سعودی حکام نے فلم سازوں اور عمانی اداکار پر الزام لگایا کہ سعودی عرب کی تذلیل کی گئی۔‘
اسامہ کے مطابق ’شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کا بین الاقوامی تصور بہتر بنانے پر اربوں ڈالر خرچ کیے لیکن اس فلم نے اس تصور کو ڈھا کر رکھ دیا اور ملک میں کام کرنے والوں کے حقوق پر ایک بحث کو جنم دیا ہے۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں