اسلام آباد : پاکستان اور چین کے درمیان ‘سی پیک’ منصوبے کے دوسرے مرحلے پر اتفاق ہو چکا ہے اور حکومت اسے ملکی معیشت کے لیے گیم چینجر قرار دے رہی ہے لیکن ماہرین حکومتی دعووں کی نفی کر رہے ہیں۔صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ‘سی پیک ون’ سے توانائی اور انفرااسٹرکچر سمیت مختلف منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچ چکے ہیں۔ اسی طرح پروجیکٹ کے دوسرے مرحلے میں بھی بڑے منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔حکومت پرامید ہے کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد سے زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، معدنیات سمیت باہمی مفاد کے دیگر شعبوں میں تعاون کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔
البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو ‘سی پیک فیز ٹو’ میں آنے والی سرمایہ کاری اور فنڈز کا سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہوگا کیوں کہ سی پیک ون کا جتنا شور شرابہ تھا اس سے وہ نتائج حاصل نہیں ہوئے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔واضح رہے کہ چین-پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) ایک ترقیاتی منصوبہ ہے جو پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی اور اقتصادی روابط کو فروغ دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔
اس منصوبے کا مقصد چین کے جنوب مغربی صوبے سنکیانگ کو پاکستان کے گوادر پورٹ سے جوڑنا ہے۔ اس راہداری کے ذریعے چین مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور یورپ کی منڈیوں تک رسائی چاہتا ہے۔معاشی تجزیہ کار اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکانومکس کے سربراہ شجاعت فاروق کہتے ہیں کہ سی پیک فیز ون میں حکومت کی زیادہ توجہ توانائی اور سڑکوں کی تعمیر پر تھی اور حکومت نے زیادہ پیسہ غیر پیداواری منصوبے پر لگایا اور تاحال کوئی بھی ایسا منصوبہ سامنے نہیں آ رہا جو کہ ملک کے لیے کمائی کا ذریعہ بن رہا ہو۔