پیرس کے ہوائی اڈے سے( سفرنامہ سپین )

حسنین نازشؔ:

قسط.1

20 مئی 2023 کی ایک سنہری صبح ۔میں پیرس کے اس مضافاتی مقام پر موجود.بوویز ایئرپورٹ کی انتظار گاہ میں بیٹھا انہی سوچوں میں گم تھا کہ مجھے پیرس شہر سے یہاں الوداع کرنے والے میرے کزن قاضی نصیر اور ہمارے پیرس میں موجود دوست سلیم اقبال صاحب پر کس قدرگراں گزرا ہوگا جب ایئرپورٹ کے عملے نے مجھے اگلے سفر کے لیے بارسلونا جانے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ میرا واحد رک سیک (جو میں نے اپنے کندھوں پر لٹکایا ہوا تھا) اس کا حجم اس بجٹ ائیر لائن کے مطلوبہ حجم سے زیادہ ہے۔

صاحبان نے اس رک سیک۔کو ایک سانچے سے گزارنے کی کوشش کی۔ سانچہ اس قدر چھوٹا تھا کہ دو فٹ کا تھیلا تو اس میں سما سکتا تھا مگر میرا رک سیک اس سے نہ گزر سکا۔ اس لیے مجھے کہا گیا کہ مجھے اضافی 35 یورو ادا کرنے پڑیں گے اوروہ بھی کارڈ کی صورت میں ۔میں نے عملے کو سمجھانے کی کوشش کی کہ براہ کرم میرے پاس اس وقت جو ڈیبٹ کارڈ ہے یہ پاکستان میں تو کام کر رہا تھا لیکن صد افسوس کہ حدود پاک وطن سے نکل کر اس کارڈ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اللہ غارت کرے میرے بینک اور بینک والوں کا جنہوں نے انٹرنیشنل سروس ایکٹیویٹ نہیں کی۔
میں نے بڑی منت کی کہ مجھ سے کیش لے لیا جائے اور مجھے جانے دیا جائے لیکن وہ بضد ر ہے کہ آپ کو کارڈ کے ذریعے سے ہی پیمنٹ کرنی ہے اس کے علاوہ ہمارے پاس اور دوسرا کوئی حل نہیں ہے ۔یہ میرے لیے ا چھنبے کی بات تھی کہ پیرس جیسے بڑے شہر کے ایک بین الاقوامی ہوائی اڈے پر بھی اس طرح کی معمولی سہولیات کا فقدان ہے۔عملے کو نہ تو میری بات پر یقین آیا اور نہ ہی مجھ غریب الوطن پر ترس۔ ان کو میری کوئی بات نہ سمجھ میں آئی اور نہ ہی وہ سمجھنا چاہتے تھے ۔اس لیے مجھے مجبور ہو کرواپس ہوائی اڈے کی داخلی انتظار گاہ کا رخ کرناپڑا۔
میرا کزن قاضی نصیر اور سلیم اقبال صاحب ابھی تک انتظار گاہ میں بیٹھے میرے ساتھ کسی انہونی کے منتظر تھے – وہی ہوا۔ میں نے دونوں احباب کو ائیر پورٹ کے عملے کی بے اعتنائی کی ساری رام کہانی سنائی۔ قاضی نصیر سے مدد مانگ کر مجھے 35 یورو ان سے ادھار لے کر اگلی منزل کی طرف جانا پڑا ۔
مجھے بہت دکھ ہوا کہ ایک تو میں نے بڑی سمجھداری کی کوشش کی تھی کہ میں پیرس کے مرکز ی بین الاقوامی ہوائی اڈے سے ٹکٹ نہ بک کروایا بلکہ مضافاتی ایئرپورٹ سے اس لیے ٹکٹ بک کروایا تھا کہ یہاں سے مجھے 50 یورو کی بچت ہو جائے گی لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ 35 یورو تو انہوں نے یہیں مجھ سے اینٹھ لیے اور ساتھ ہی ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو الگ۔احباب کا احسان الگ سے اٹھانا پڑا اور شرمندگی کے بوجھ سے سر بھی جھک گیا۔
ثابت ہوا کہ حقیقت میں بچت کچھ نہیں ہوتی – جب جب ضرورت سے زائد بچت کرنے کی کوشش کی تو نقصان ہی اٹھانا پڑا ۔ ۔
قاضی نصیر کا پھر سے احسان لینا پڑا اور ان کا ہی کریڈٹ کارڈ استعمال کیا -میں نے اپنی سی کوشش کی کہ 35 یوروان کی جیب میں ڈالے جائیں لیکن وہ نہ مانے ۔یوں جو میزبانی ایک ہفتہ پورا پیرس میں قاضی نصیر نے میری اپنے گھر میں کی اور مجھے پورے پیرس کی سیر کرائی اس کے ساتھ ہی جاتے جاتے انہیں 35 یورو کا الگ بل ادا کرنا پڑا۔

دکھ تو اس بات کا ہے کہ میں نے یورپ کا سفر اختیار کرنے سے پہلے اپنے متعلقہ بینک کے اعلیِ عہدیدار کو اپنے دفتر بلا کر باقاعدہ تنبیہ کہ تھی کہ میری انٹرنیشنل کارڈ سروسز کو بحال کیا جائے کیونکہ میں بین الاقوامی سفر پر روانہ ہو رہا ہوں ۔مجھے ان صاحب نے خوب تسلیاں دی تھیں لیکن یہاں یہ سب محض طفل تسلیاں ثابت ہوئیں۔
البتہ سپین پہنچتے ہی پہلی فرصت میں اپنے اس بنک سے اپنے تمام اثاثے نکال کر کسی دوسرے بنک منتقل کرنے کی ترکیبیں بناتا رہا۔اس بدمزگی کے بعد میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی اور پھر سے اپنے خیالات کو الحمرا کے باغوں بارسلونا کے ساحلوں ، قرطبہ کی پرفسوں گلیوں، غرناطہ کے رنگین بازاروں، اشبیلیہ کے زیتون کے باغوں اور میڈریڈکے بل فائٹر میدانوں میں الجھانے لگا جہاں میرا اگلا ہفتہ گزرنے والا تھا۔
نوٹ:
قاضی نصیر اور پیرس میں بنے ایک دوست سلیم اقبال کے ساتھ پیرس کے بوویز ائیر پورٹ پر لی گئی تصویر حاضر خدمت ہے۔

( جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں