حسنین نازش:
قسط-9
اندھیرا بارسلونا کے دامن میں اتر چکا تھا۔ بارسلونا کی رات دن سے زیادہ سحر انگیز تھی۔ صدیوں پرانی عمارتوں کی گلیاں روشن ہوچکیj تھیں۔بڑے بڑے شاپنگ مالز اشیاء اور خریداروں سے اب بھی بھرے ہوئے تھے۔
صرف یہی نہیں بلکی شراب خانے اور نائیٹ کلب بھی اپنے گاہکوں کی راہیں تکنے لگے تھے-
یہاں ایک نوجوان شعیب کے ساتھ ہسپانوی زبان میں تکرار کرتا رہا۔ وہ ہمیں ہمراہ لیے ایک جگمگاتی وسیع عمارت کے صدر دروازے کے پار لے گیا۔ صدر دروازے کے اندر ایک چھوٹا دروازہ تھا۔ دروازے کے سامنے ایک باوردی دربان کھڑا تھا۔ اس نوجوان کے کہنے پر دربان نے مودب ہو کر دروازہ کھولا۔ دروازہ کھلتے ہیں موسیقی کا بلند شور یمارے کانوں کو پھاڑنے لگا۔ درجنوں گول میزوں کے گرداگرد نوجوان مرد وزن براجمان تھے۔ میزوں کے پرے ایک بڑا سٹیل کا ستون تھا جس کے گردا گرد ایک قریب قریب برہنہ عورت محض چار گرہ کپڑوں میں انتہائی ضروری بدنی اعضاء کو ڈھانپنے کی ناکام کوشش کیے ہوئے پول رقص سے ناظرین سے داد طلب کر رہی تھی۔ یہ سٹرپ ڈانس کلب تھا۔ میں نے اور فیصل نے شعیب کو غضب ناک نظروں سے دیکھا – شعیب سمجھ گیا اور اگلے ہی لمحے ہم نے واپسی کی راہ لی۔ ہسپانوی نوجوان دلال شعیب کوہسپانوی زبان میں مغلظات بکتا رہا۔ جیسے کہہ رہا ہو مفت میں آنکھیں سیک کر لوٹ رہے ہو۔
ہم اس نا خواش گوار واقعے کو بھلا کر پھرسے لا رامبلا کی سڑکوں اور گلیوں میں مٹر گشت کرنے لگے جہاں اس وقت سیاح اور مقامی ہسپانوی لڑکے اور لڑکیاں ہسپانوی میوزک پر مختلف انداز میں رقص کرنے میں مصروف تھے۔
میں نے کھوپڑی والے پل کو یاد کراتے ہو ئے شعیب کو متوجہ کیا:
” شعیب بھائی آپ ہمیں ایسی کون سی جگہوں پہ لے آئے ہیں جہاں کھوپڑیاں اور بھوت ہیں-پل بھی ایسے کہ جن پر کھوپڑیوں کی شبیہیں کندہ کی گئی ہیں۔”فیصل نے واکنگ ٹور گائیڈ شعیب سے ہوچھا۔
شعیب نے جواب دیا:
“ابھی تو مجھے آپ کو بارسلونا کے مضافات مارلی میں لے کر جانا ہے جہاں العرب سادہ کسینو اور تورے سلینا نام کی جگہیں ہیں ۔
یہ مقامات بارسلونا شہر سے دور ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں بھوت رہتے ہیں- لوگ یہاں بھوتوں سے ملنے کے لیے جاتے ہیں اور اگر اپ کا دل کرے تو یہاں ایسے نامکمل ناقابل فراموش مقامات ہیں ۔ یہاں ایک اعلیٰ پائے کا ہوٹل اور کسینو عوام کی عیاشی کے لیے کھولاگیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایسا ہوٹل بھی ہے جہاں دنیا بھر کی آسائشات میسر ہیں- عام طور پہ یہ وہ جگہیں ہیں جو اعلی طبقے کے افراد کے لطف اندوز ہونے کے لیے بڑے بڑے شہروں میں بنائی جاتی ہیں ۔
اہم بات یہ ہے کہ یہاں اس ہوٹل میں ایک بہت خاص کمرہ ہے جسے خودکشی کرنے والا کمرہ کہتے ہیں- جو لوگ اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی شراب خانے یا کسینو میں اڑا دیتے ہیں اور پھر کف افسوس مل کربالآخر اپنی جان لینا چاہتے ہیں تو اس ہوٹل کے اس کمرے کا استعمال کر کے وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں-”
شعیب مجھے ایک گائیڈ لگا۔ ایسا گائیڈ جو سیاحوں کے دل میں مقامی جگہوں کی سیاحت کرنے کا گر اچھی طرح جانتا ہے۔ ایسے پیشہ ور گائیڈ ہرملک میں جابجا ملتے ہیں جو ہم جیسے سادہ لوح سیاحوں کو افسانوی کہانیاں سنا کرروزگار سیاحت کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
“تو پھر کیا خیال ہے حسنین صاحب! اگر آپ نے خود کشی کرنی ہے تو کیوں نہ آپ کو اس ہوٹل میں لے چلتے ہیں-وہاں جا کے آپ اس کمرے میں بیٹھ کر آرام سے خودکشی کر سکتے ہیں-ویاں خودکشی کرنے کے سارے اسباب بھی میسر ہیں۔ کیا عمدہ منظر ہوگا لوگوں کے لیے بھی اور ہمارے لیے بھی کہ محبت میں سب کچھ ہارا ہوا ایک سفرنامہ نگارمزید غم دم سہنے سے قاصر ہو کر بڑے اہتمام سےخود کشی کرلے۔”اس بار فیصل رحمان نے مجھ ہر پھبتی کسی۔
“ارے ناں بھائی! مجھے خودکشی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے -میں تو اس سوچ سے ہی خوف میں مبتلا رہتا ہوں کہ کیسے کوئی شخص اپنی جان لے سکتا ہے- پتہ نہیں ایسے لوگ بہادر ہوتے ہیں یا انتہائی بزدل جو مشکلات کا سامنے کرنے سے قاصرہو کر اپنی جان لے لیتے ہیں ۔بزدل یوں کہ حالات کا مقابلہ نہیں کر ہاتے اور بہادر یوں کہ اپنی ہی جان لیتے ہیں۔”
“ناراض کیوں ہوتے ہیں نازش صاحب! اگر اپ خود کشی نہیں کرنا چاہتے تو میں آپ کو دوسرے مقام پر لے جاتا ہوں- یہ بھی بارسلونا کے اسرار کی ایک ایسی جگہ ہے جسے تورے سلوانا کہتے ہیں-
یہ ان جگہوں میں سے ہے جن کے بارے میں بہت کم لوگوں کوعلم ہے- لطف کی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ ان مقامات پر جاتے ہیں تو ان کی ملاقات کھنڈرات میں ایک بڑھیا سے ضرورہوتی ہے جو بھیک مانگتے ہوئے نظر آتی ہے۔ اصل میں یہ بڑھیا نہیں بلکہ ایک ایسی بد روح ہے جس کو ماضی کسی نے محبت میں دھوکہ دے کر اس کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کر کے اسے قتل کر کے ان کھنڈات میں پھینک دیاتھا- اب وہی بڑھیا بد روح بن کر بھیک مانگتے ہوئے نظر آتی ہے –
صرف ایسا ہی نہیں ہے بلکہ یہاں گلابی اور نیلے لباس میں ملبوس دو لڑکیاں بھی گھومتی رہتی ہیں جو کہ کئی دفعہ یہاں سیاحوں کو چلتے پھرتے نظر آتی ہیں لیکن جو نہی کوئی سیاح ان کے قریب جانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ایسے غائب ہو جاتی ہیں کہ جیسے ان کو وجود یہاں تھا ہی نہیں ۔کہاجاتا ہے کہ وہ لڑکیاں نہایت خوش بخت لوگوں کے ہی ہاتھ آئیں گی۔درجنوں لوگ ہرروز ان کھنڈرات میں ان لڑکیوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں -یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ لڑکیاں کھنڈرات کی غلام گردشوں میں کہیں دائیں بائیں نکل گئی ہیں – وہ لڑکیاں کسی کے ہاتھ نہیں آتیں – تو کیوں ناں ہم اپنی سی کوشش کرکے ان لڑکیوں کو ڈھونڈتے ہیں۔ شاید وہ خوش قسمت ہم ہی ہوں۔”شعیب نے اپنی ایک آنکھ کاکونہ دابتے ہوئے ہم دونوں سے رائے طلب کی۔
“ارے نہیں شعیب بھائی! ہمیں ایسے پراسرار مقامات پر لے جانے کی ضرورت نہیں ہے- ویسے بھی آدھی رات بیت گئی ہے- اور آپ بھوتوں اور پری زادوں کی باتیں کر رہے ہیں جس سے جسم میں سنسنی پیدا ہو رہی ہے۔آپ ہمیں آج شب کی آخری منزل کی جانب لے چلیں تاکہ اس کے بعد ہم اپنے ہوٹل جا کر آرام کر سکیں۔”
شعیب ہمیں مختلف گلیوں سے گھماتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ یہاں ایک گلی میں علامہ ڈاکٹرطاہرالقادری کی تنظیم دعوت اسلامی کا دفتر اور مسجد نظر آئی۔ نصف شب ہونے کو تھی اس لیے مسجد مقفل تھی۔ اگلی گلی میں بنگالیوں کی مسجد تھی – اگلے دس منٹ کی مسافت کے بعد ہماری نظر طارق بن زیاد مسجد پر پڑی۔ مسجد کے اس سائن بورڈ کو پڑھ کر بے حد دلی مسرت حاصل ہوئی۔ پہلی بار بارسلونا آمد پر احساس ہوا کہ اندلس کی سیر کیے جا رہا ہوں۔ طارق بن زیاد کے اندلس کی سیر۔
چھ دیر مسجد کے سامنے کھڑے ہو کر ہم بارسلونا کے ساحل کے قریب موجود مشہور مقامات کی طرف چل نکلے۔
ہمارے میزبان گائیڈ شعیب نے دائیں جانب دونوں طرف درختوں سے مزین ایک دلکش راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ راستہ ’بوٹینیکل گارڈن‘ کی طرف جاتا ہے-
یہاں پر بھی سیاح بڑی تعداد میں موجود تھے-
“ابھی ہم کرسٹوفر کولمبس کے مجسمے کے پاس چلتے ہیں جو لا رامبلا سٹریٹ کے ساحلی جانب واقع ہے۔”
ہم شعیب کے پیچھے پیچھے چہل قدمی کرتے ہوئے کرسٹوفر کولمبس کے یادگاری مجسمے کے پاس پہنچ گئے۔ کولمبس کا تعلق سپین سے تھا اسی لیے اس مجسمے کے بالکل قریب بحیرہ روم کےکنارے اس کی زیرِاستعمال وہ کشتی بھی موجود تھی جس میں بیٹھ کر اس نے نئی دنیا امریکا کی شکل میں دریافت کرکے اسپین کے عوام کومال ودولت سے مالا مال کردیا تھا۔
یم تھوڑی دیر بعد کولمبس کے مجسمے کر پاس پہنچ گئے۔
مجسمہ ایک بلند ستون پر نصب کیا گیا تھا جو اس “نئی دنیا” یعنی امریکی کی جانب اشارہ کررہا تھاجو اس نے دریافت کی تھی۔ اس مجسمے کے نیچے شیروں کے چار مجسمے بھی موجود تھے۔ ظاہر ہے شیر طاقت اور قوت کا نشان ہے۔ جو اس وقت کولمبس کے قدموں تلے تھے۔
جاری ہے…..