ہانیہ نور:
حماد صاحب کے لیے گھر کی بدنظمی، بچوں کی سُستی، کام چوری چونکا دینے والی تھی۔اس کے علاوہ بیگم کے ذہنی تناؤ کی بڑھتی ہوئی حالت بھی تشویش ناک تھی۔صبح کے وقت بچوں کو آوازیں دے دے کر اٹھانا، ناشتہ تیار کر کے ان کا انتظار کرنا، بچوں کا کروٹ بدل کر پھر سو جانا، روزانہ کا معمول تھا۔ یہی معمول ان کے ذہنی تناؤ کا سبب تھا۔
دراصل حماد صاحب فوج، جیسے منظّم ادارے سے وابستہ تھے۔ اپنے خاندان کے ساتھ چھٹی گزارنے گھر آئے تو اپنے ہی گھر میں بد نظمی اور وقت کی پابندی کا فقدان دیکھ کر سوچنے پر مجبور ہو گئے۔بچے جیسے تیسے تیار ہو کر سکول چلے گئے۔تھوڑی دیر بعد جب حماد صاحب کی بیگم گھر کی صفائی کرنے لگیں تو سب بچوں کی کوئی نہ کوئی چیز ملنا شروع ہو گئی، جو دیر سے اُٹھنے اور بھاگ دوڑ کے باعث گھر رہ گئی تھیں۔ امی جان ایک دفعہ پھر سر پکڑ کر بیٹھ گئیں اور حماد صاحب کے سامنے شکوے شکایات کا انبار کھول دیا۔’’دیکھ لیجیے! ہمارے بچے کتنے لاپروا ہیں۔میری تو سُنتے ہی نہیں، ان کو سمجھا سمجھا کر میں تو پریشان ہو گئی ہوں۔‘‘
’’ارے بھئی! میں تو خود ان حالات سے الجھن کا شکار ہو گیا ہوں اور آپ کی حالت بھی میرے لیے باعثِ تشویش ہے۔بہرصورت اس کا حل تلاش کرنے میں عافیت ہے ۔‘‘حماد صاحب چونکہ بذاتِ خود ایک منظّم ادارے میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس لیے وہ زندگی میں نظم و ضبط اور باقاعدگی کی اہمیت اور ثمرات سے بخوبی آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ اس طرح کی صورتحال سے کس طرح نبٹنا ہے۔
وسیم، زارا اور عذرا سکول سے واپس آئے تو سب کے منہ بنے ہوئے تھے۔ اپنی اپنی چیزیں گھر بھول جانے پر اساتذہ سے ڈانٹ پڑی تھی۔کھانے کی میز پر حماد صاحب نے تینوں بچوں اور ان کی امی جان سے ان کی اس پریشانی کی وجہ معلوم کی؟بچوں نے ایک دوسرے کی شکایات کا پنڈورہ بکس کھول دیا۔حماد صاحب نے سب کی باتیں تحمل سے سُنیں اور آخر میں کہنے لگے،’’دیکھو بھئی بچو! میں آپ لوگوں کو اس مسئلے کا حل بتاتا ہوں ۔اگر آپ سب نے اس پر عمل کیا تو یقیناً مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘
تینوں بہن بھائیوں کے ساتھ ساتھ ان کی امی جان بھی حماد صاحب کی بات سُننے کو بے قرار ہو گئیں۔
حماد صاحب بولے ،’’انسان کی زندگی میں باقاعدگی اور نظم و ضبط آ جائے تو یہی دُنیا اس کے لیے جنت بن جاتی ہے۔ ‘‘
وسیم نے جھٹ سے سوال داغ دیا،’’بابا جان! براہ کرم ہمیں اس کا طریقہ بتائیے، ہم اس پر عمل کرکے اپنی زندگی کا معمول بدلنا چاہتے ہیں۔‘‘ وسیم کی بات سے سب کے چہروں پر امید کی ایک لہر دوڑ گئی۔
’’بابا جانی! ہم نے کرنا کیا ہے؟۔ہم سب کو اپنے اپنے حصے کا کام سمجھا دیجئے۔‘‘زارا کے سوال کو حماد صاحب نے سراہتے ہوئے اُسے شاباش دی۔ ’’بہت خوب بیٹا! میں سب کو اپنے اپنے فرائض ابھی سمجھا دیتا ہوں۔‘‘
سب سے چھوٹی عذرا بولی ’’بابا جان! سب سے پہلے مجھے میری ذمہ داری بتائیے۔میں نے آج اور اسی وقت سے اپنا کام شروع کرنا ہے۔‘‘بچوں کا بڑھتا ہوا جذبہ اور دلچسپی دیکھ کر اُن کی امی جان کو بھی ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہونے لگا۔
’’سب سے پہلے تو روزانہ کی بنیاد پر سب بچوں نے صبح سویرے جلدی اُٹھنا ہے۔ نماز پابندی سے پڑھنی ہے۔ ‘‘سب بچوں نے یک زبان ہو کر بابا جان کی تائید کی ۔’’بالکل ضرور انشااللہ۔ ‘‘اس کے بعد حماد صاحب انفرادی طور پر ہربچے سے مخاطب ہوئے۔’’زارا! سب سے پہلے آپ اپنے روزانہ کے کام سُن لیجئے۔‘‘
چھوٹی عذرا جھٹ سے بول اُٹھی ،’’بابا جانی! پہلے چھوٹوں سے بتانا شروع کریں، میں سب سے چھوٹی ہوں لہٰذا مجھے میرا کام سب سے پہلے بتائیے۔‘‘عذرا کی فرمائش پر سبھی بے اختیار ہنس پڑے۔دراصل وہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ضرور تھی تاہم احساسِ ذمہ داری اس میں قدرے زیادہ تھا۔وسیم اور عذرا کی نسبت وقت کی پابندی کرتی اور امی جان کے ساتھ گھریلو کام کاج میں مدد بھی۔اس وجہ سے اور گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کے باعث سب کو بہت عزیز تھی۔
حماد صاحب نے عذرا کو پیار کیا اور اسے اپنا کام یوں سمجھایا ،’’عذرا بیٹا! آپ نے اورزارا آپی اور وسیم بھیا نے سکول سے واپسی پر کھانا کھانے کے بعد اپنا اپنا ہوم ورک مکمل کرنا ہے۔اور پھر اگلے دن کے لیے بیگ تیار کرکے رکھ دینا ہے۔اُس کے بعد اپنا اپنا یونیفارم استری کر کے تیار رکھنا ہے۔تینوں نے اپنے اپنے جوتے بھی پالش کرکے رکھ دینے ہیں۔بیٹا! اس طرح اپنا کام خود کرنے کی عادت ڈالنی ہے۔اس طرح آپ کی امی جان کی امورِ خانہ داری میں مدد بھی ہو جائے گی اور آئندہ زندگی میں یہ عادت آپ لوگوں کے کام آئے گی۔یہ کام مکمل کرنے کے بعد آپ لوگ ذہنی تازگی کے لیے، کھیل سکتے ہیں۔لیکن کام اور کھیل کے اوقات کی پابندی ضروری ہے۔‘‘
بابا کی اس دن کی نصیحت پر عمل کرنے کے بعد بچوں کو ایک عجب خوشگوار سی کیفیت محسوس ہونے لگی۔اب نہ تو کبھی وہ سکول سے لیٹ ہوتے تھے اور نہ ہی کوئی چیز گھر میں بھولتے تھےجس کی وجہ سے اساتذہ کی ڈانٹ سُننا پڑتی۔گھر میں اس خوشگوار تبدیلی سے جہاں حماد صاحب کو اطمینان ہوا، وہیں امی جان کو بھی راحت اور سکون کے لمحات میسر آئے۔اگلی دفعہ جب حماد صاحب چھٹیاں گزارنے گھر آئے تو گھر کے ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلی دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔سب بچوں کے تعلیمی معیار میں بھی نمایاں مثبت اثرات مرتب ہوئے تھے۔سب بچوں نے بابا جانی کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اتنے خوبصورت انداز میں ان کو وقت کی پابندی اور نظم و ضبط کا عادی بنا دیا تھا۔