حسنین نازش:
قسط.16
ٹیکسی مورسیہ کی میونسپلٹی سیوتی کی جانب رواں دواں تھی۔ دوران سفر میں نے محسوس کیا کہ یہاں بھی اس وقت اتنی ہی گرمی تھی اور موسم کاویسا ہی حال تھا جیسا میں اسلام اباد میں مئی کے مہینے میں چھوڑ کر آیا تھا۔ میں نے ٹیکسی کے کھڑکی کے شیشے کو نیچے کیا تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے پھیپھڑوں میں تروات کا سبب بنے۔ بحیرہ روم کی جانب سے چلنے والی خوشگوار ہوا ذہن و قلب پر خوش گوار اثرات چھوڑ گئی۔
ٹیکسی مورسیہ شہر سے نکل کر قصبوں اور دیہاتوں سے ہوتی ہوئی سیوتی شہر کی جانب بڑھنے لگی۔
ہم اس وقت مورسیہ کے اس علاقے میں سے گزر رہے تھے جہاں اندلسی مسلم دور کے اعلیٰ ترین درجے کے سکول قائم تھے۔مورسیہ، اس کے ملحقہ علاقوں میں حتیٰ کہ دوسرے یورپی ممالک کے طلبہ یہاں آ کر علم حاصل کیا کرتے تھے۔
انہوں نے ایسے علوم اور فنون کو پروان چڑھایا جو مسلمانوں کا ہی خاصہ بن کر رہ گیا۔ مسلمانوں نے اپنے دور حکومت میں یہاں کی زندگی پر اتنا گہرا اثر ڈالا کہ بارہا کوشش کے باوجود بھی ان اثرات کو ختم نہ کیا جا سکا۔ اندازہ لگا لیجئے کہ سپین اور پرتگالی زبان میں آج بھی اگر دیکھا جائے تو چار ہزار سے زیادہ الفاظ ایسے ہیں جن کا ماخذ عربی زبان ہے۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ سپین اور پرتگال کی لغت میں بھی ایسے الفاظ باقاعدہ طور پر داخل کر لیے گئے ہیں۔جب سپین میں مسلمان فاتح کی صورت میں آئے تو اس زمانے میں اندولیسیہ کی کل آبادی 40 لاکھ کے قریب تھی۔ مسلمان فاتحین یہاں آئے تو عرب اور افریقی مسلمان آبادکاروں نے یہاں آباد ہونا شروع کر دیا۔اس وقت ان کی تعداد 50 ہزار سے زائد نہ تھی۔آج اگر بارسلونا کی اینتھرو پالوجی اور دمنیت کے شعبوں کی لائبریریوں کی ورق گردانی کی جائے تو علم ہوگا کہ توالد و تناسل اورقبول اسلام کے ذریعے سپین کی مسلم آبادی میں جو اضافہ ہوا تو اس کی تعداد کو گنا جائے تو دسویں صدی کے آخر میں مسلمان کی تعداد ہسپانیہ کے آٹھ بڑے شہروں طلیطہ، قرطبہ، المیریا، سرقسط، ولنسیہ، غرناطہ، مالقہ اور مورسیہ میں تقریبا چار لاکھ کے قریب تھے۔
یاد رہے کہ مسلم سپین سیاسی اعتبار سے کسی ایک وحدت کا نام نہیں تھا۔ اس کے تین بڑے ادوار ہیں پہلا دور اس وقت سے شمار کیا جاتا ہے جب طارق بن زیاد نے 711ء میں جبرالٹر کے راستے میں سے داخل ہو کر اندلس میں مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی۔یہ اندلس یاسپین میں حکومت، بغداد کی عباسی خلافت کے تحت تھی اس حکومت کا پہلا امیر عبدالعزیز بن موسیٰ تھا اس نے اشبیلیہ کو اپنی راجدھانی بنایا، دوسرے امیر ایوب بن حبیب نے قرطبہ کو اپنا پاپہ تخت بنایا۔ دوسرا اہم دور 756ء میں وقوع پزیرہوا۔ یہ وہ دور تھا جب دمشق میں اموی خلافت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔اس کی جگہ ایک خونی انقلاب کے بعد عباسی خلافت قائم ہو چکی تھی۔ عباسی حکمران اموی خاندان کے سرکرداں لوگوں کو چن چن کر قتل کر رہے تھے۔ایسے میں اموی خاندان کے ایک اہم فرد عبدالرحمن فرار ہو کر اندلس پہنچ گئے۔ انہوں نے اندلس میں امو یوں سے ہمدردی رکھنے والے مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملایا اور اور اپنی اعلیٰ قاہدانہ صلاحیتوں کو عمل میں لاتے ہوئے اسی سال یعنی 756ء میں قرطبہ پر قبضہ کر کے اندلس میں نئی اموی سلطنت کی بنا رکھ دی۔ اس سلطنت کا عباسی سلطنت سے کوئی سیاسی تعلق نہیں تھا۔یہ قر طبہ کی آزاد اور خود مختار سلطنت تھی۔عبدالرحمن نے خلیفہ یا بادشاہ کے بجائے اپنے لیے امیر کا لقب اختیار کیا اور ساتھ8 78 تک اندلس پر حکومت کی۔
اس دور میں اندلس کے مسلمان خوشحال اور طاقتور تھے۔ انہیں عیسائیوں سے بھی کوئی خاص چیلنج درپیش نہیں تھا لیکن عبدالرحمن کی وفات کے کچھ برس بعد صورتحال بدلنے لگی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ عبدالرحمن کے جانشین بہت کمزور تھے۔ سلطنت پر ان کی گرفت بھی پوری طرح برقرار نہیں تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شمالی سپین میں دوریاز کی چھوٹی سی سلطنت طاقتور ہونے لگیں۔ اس علاقے میں مسلمانوں نے جن عیسائیوں کو شروع میں جاگیریں دی تھیں وہ بھی اب خود مختار ہونے لگے۔ یوں اگلے دوسو برس کے دوران شمالی سپین کے اس علاقے میں چھوٹی چھوٹی عیسائی ریاستیں وجود میں آگئیں۔ انہوں نے خود مختاری کے اعلان کر دئیے۔
جو عیسائی ریاستیں قائم ہو رہی تھیں ان میں ایک بات مشترک تھی وہ یہ کہ ان سبھی ریاستوں کے حکمران اور عوام دل سے چاہتے تھے کہ وہ مسلمانوں کو ہر قیمت پراندلس سے نکال دیں۔ان کا خیال تھا کہ اندلس کی زمین ان کی ہے کیونکہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے ان کے اجداد ہی یہاں کے مکین تھے۔اب ان کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں سے اندلس کی سرزمین کا چپہ چپہ واپس لے کر اپنی ریاست قائم کردیں۔ عیسائیوں میں یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ ان کے حکمران عیاش ہو گئے تھے اور عیسائیت کی تعلیمات سے بھی دور ہو گئے تھے اس لیے انہیں خدا نے سزا کے طور پر ختم کر دیا۔اور مسلمانوں کی شکل میں عیسائیوں پر ایک عذاب مسلط کر دیا ہے۔ اس لیے عیسائیوں نے مسلمانوں سے اپنے علاقے واپس لینے ہیں تو ان کا خیال تھا کہ انہیں عیسائیت کی طرف واپس آنا ہوگا اپنے اخلاقیات عیسائیت کی تعلیمات کے مطابق بہتر کرنا ہوں گے۔
اس طرح نویں صدی میں ہی عیسائی ریاستوں میں حکومتی سرپرستی کے ساتھ ایسی کتابیں اور لٹریچر لکھا جانے لگا جن میں مسلمانوں سے نفرت پھیلائی جانے لگی۔ عیسائی مسلمانوں کو حقارت سے”مور“ کہتے تھے۔ عام طور پر اس اصطلاح کا مطلب تھا افریقہ کے رہنے والے لوگ حالانکہ اندلس میں تو عرب مسلمان بھی رہتے تھے لیکن”مور“ تھے اور وہ ہر قیمت پر ان سے چھٹکارا چاہتے تھے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا لٹریچر لکھا جا رہا تھا جس میں مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کے مذہبی جذبات کو بڑھکا کر ان سے مطالبہ کیا جاتا تھا کہ وہ مسلمانوں کو اندلس سے نکال کر دوبارہ اپنی سلطنت قائم کریں۔
اندلس کو دوبارہ فتح کرنے کی عیسائی جدوجہد یعنی سپین کی دوبارہ فتح کو بغور دیکھیں توایک طرف تو عیسائی مسلمانوں سے اندلس کو دوبارہ چھیننے کے خواب دیکھ رہے تھے لیکن دوسری طرف مسلمان عیسائیوں کو جاگیریں دے رہے تھے۔ ان کے زیرتسلط علاقوں میں مسلمان، عیسائی اور یہودی سب مل جل کر رہتے تھے اور انہیں مذہبی آزادیاں بھی حاصل تھیں لیکن اس سب کے باوجود بھی عیسائی سمجھتے تھے کہ وہ مسلمانوں کے غلام بن چکے ہیں۔ وہ غلام بن کر نہیں رہ سکتے یعنی مسلمان ان سے جتنا بھی اچھا سلوک کریں وہ انہیں ہر قیمت پر انہیں اندلس سے نکالنا چاہتے تھے کیونکہ وہ خود کوہی اس زمین کا مالک سمجھتے تھے۔ ان کے مقابلے میں مسلمانوں میں مل جل کر رہنے کی بہت زیادہ گنجائش تھی۔ دیگر الفاظ میں مسلمان عیسائیوں کو اپنے زیرِ نگیں علاقوں سے نکالنے کے حوالے سے اتنے سنجیدہ نہیں تھے جتنا عیسائی انہیں بے دخل کرنے کے لیے بے چین تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمان شمالی اندلس کی طرف سے امڈتے ہوئے عیسائی خطرے کو نظر انداز کر رہے تھے اور نہ ہی اس کے مقابلے کے لیے انہوں نے کوئی ٹھوس حکمت عملی بنانے کی کوشش کی تھی۔
اس کے بعد بات کرتے ہیں تیسرے دور کی جب اندلس میں طواف الملوکی حد کو پہنچ گئی ہر علاقے کے امیر نے مرکز سے بغاوت کر کے اپنی خود مختار حکومت قائم کر لی۔ ان حکومتوں کو طائفہ حکومتیں کہا جاتا تھا۔ اس طرح اندلس میں تقریباََ 20 طائفہ حکومتیں بن گئی۔ ان چھوٹی چھوٹی تائفہ حکومتوں کو عیسائی ایک ایک کر کے ”ڈیوائڈ اینڈ رول“ تقسیم کرو اور حکومت کرو کے سنہری اصول کے مطابق ختم کرتے رہے۔ حتیٰ کہ آخر میں غر ناطہ کی محدود حکومت اس طرح باقی رہ گئی جس طرح انیسویں صدی کے وسط میں دہلی میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی حکومت باقی رہی تھی۔
عاصم شکور عمر میں مجھ سے دو تین برس چھوٹا ہے، وہ زمانہ طالب علمی ہی میں بسیار پڑھاکو جانا مانا جاتا تھا۔ جس دور میں ہم ایسے میڑک میں اول دوم اور سوم درجے میں پاس ہوتے تھے اور اول درجے یعنی ساٹھ فی صد نمبروں کا حصول ایک خواب ہوتا تھا اس دور میں عاصم نے ضلع بھر میں نمایاں نمبروں کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ اس کے بعد اچھے ہی نمبروں سے ایف ایس سی کی اور ٹیکسلا کی انجینئرنگ یونیورسٹی سے انجنئرنگ کی۔ پھر اچانک خاندان بھر میں فوراََ یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ عاصم اپنی نوکری چھوڑ کر کسی کو بتائے بغیر ہی فرانس پہنچ گیا ہے۔وہ فرانس میں چند برس مقیم رہا اور پھر سپین کے صوبے مُورسیہ کی میونسپلٹی سیوتی میں آن بسا۔
اب مطالعے کا شوق رکھتا ہے مگر تاریخ دانوں کے جانبدارانہ رویے پر سخت مایوس ہے۔ ایسی رائے وہی شخص رکھ سکتا ہے جو کسی عنوان یا تاریخ کے کسی خاص گوشے کا کثیر المطالعہ ہو۔
سپین میں مسلمانوں کی موجودہ حالت کے بارے میں گفتگو ہوئی تو عاصم نے ایک مدبرکی طرح اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:
”حسنین بھائی! مسیحوں کی اسلام دشمنی اور ظلم و زیادتی کے باوجود اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اسلام سرزمین سپین میں بخیر و عافیت آج بھی موجود ہے۔ افسوسناک عمل یہ ہے کہ تاریخ کے بارے میں کسی ایک کتاب کو پڑھ کر ہم ایک خاص رائے قائم کر لیتے ہیں جو کہ صحیح نہیں ہے۔ہسٹری کے حوالے سے میں آپ کو یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہسٹری کیا ہے His tory یعنی ”ہز“ ”وکٹری“۔ ہسٹری تو لکھی ہی فاتحین نے ہے۔
سپین کے بارے میں مسلمانوں نے جو جو کتابیں لکھی ہیں ان کا انداز آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے صرف اچھی اچھی باتوں کو ہی شامل کیا گیا ہے اور دیگر اقوام خاص طور پر مسیحیوں اور کسی حد تک یہودیوں کی بری باتوں کو ہی شامل کیا گیا ہے۔ اور یہ سلسلہ اس کے بالکل برعکس بھی ہے۔ افسوسناک عمل تو یہ ہے کہ جب آپ سچائی کی کھوج لگانے جاتے ہیں تو جب آپ اپنے ہی ہم وطنوں اورہم مذہب لکھاریوں کو پڑھتے ہیں تو آپ کے ذہن میں بھی ایک خاص قسم کا نقطہ نظر ہی پیدا ہوتا ہے۔ کاش کہ ہم مسلمان بھی مسیحیوں اور یہودیوں کی کتابیں بھی پڑھیں اور ان کی تاریخ کو مطالعہ کریں تو شاید صداقت کی کوئی راہ ہمارے ہاتھ ہو جائے۔اسی فارمولے پر اگر مخالفیں بھی عمل پیرا ہوں تو تاریخ کی اجلی شکل کی بجائے مسخ شدہ شکل ہمارے آگے آشکار ہو سکتی ہے۔“
”کیا آپ سمجھتے ہی کہ سپین میں مسلم سیاسی کردار کے خاتمے کو یہاں اسلام کے خاتمے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟“مجھے مزید دلائل درکار تھے۔ویسے بھی بھوک سے بُرا حال تھا اور ہماری ٹیکسی تھی کہ مُورسیہ کی شاہراہوں پر دوڑے چلے جارہی تھی۔اس لیے وقت کٹی کے لیے عاصم کی گفتگو سے حظ اٹھایا جا سکتا تھا۔
”سپین میں مسلمانوں کے سیاسی کردار کے خاتمے کو سپین میں اسلام کاخاتمہ سمجھ لینا بالکل غلط ہے۔ حالانکہ سپین میں مسلم سیاسی اقتدار کے خاتمے کے باوجود اسلام کے دینی وجود کو زندہ رکھ سکتے تھے لیکن افسوس کہ ہم محض فریاد کر تے رہے عملی طور پر کو ئی ٹھوس قدم نہ اٹھایا۔“
”برادرعاصم! اس سے آپ کیا مراد لیتے ہیں کہ سپین کی تاریخ کو اسلامی بنانا۔یعنی اندلسی تاریخ کو سپینش تاریخ بنانا۔ اس ٹرم سے آپ کیا مراد لیتے ہیں اور اس کے نقوش کیسے اور کہاں دیکھنے میں ملیں گے؟
میں نے جان بوجھ کے اس کو چھیڑا۔ اگرچہ میں جانتا تھا کہ اب بھی میڈرڈ، غرناطہ اور قرطبہ میں مسلمانوں کے طرز معاشرت اور ان کی معیشت اور خاص طور پر ان کی بنائی ہوئی عمارات وغیرہ کے نشانیاں آج بھی موجود ہیں لیکن میں خارجی کے علاوہ داخلی معاملات کے بارے میں بھی جاننا چاہ رہا تھا۔یہ سمجھ لیجیے کہ فرسٹ ہینڈ نالج لینا چاہ رہا تھا کہ یہاں کا ایک مسلم رہائشی جو مورسیہ میں 12 سال سے مقیم ہے وہ اس بارے میں کیا خیال کرتا ہے۔
”حسنین بھائی!نئے تقاضوں کے تحت سپین میں مستقل طور پر ایک عمل جاری ہو گیا ہے جس میں اندلس کی اسلامی تاریخ کو سپینی یا سپینش بنانا ہے۔ اس نئے رجحان کے تحت سپین میں بہت سے ایسے کام کیے جا رہے ہیں مثال کے طور پر قرطبہ جا کر دیکھیں گے کہ وہاں کی سڑکوں پر مسلم شخصیتوں کے بورڈ لگے ہوئے ہیں۔ مختلف سڑکیں ہیں جو کہ مسلمان مفکرین اور سائنس دانوں کے نام سے منسوب ہیں۔ جیسے شاہراہ ابنِ رشد، شاہراہِ ابن رشد وغیرہ۔ میں آپ کو انشاء اللہ قرطبہ جا کر دکھاؤں گا۔ وہاں کی سڑکوں کے کنارے آپ دیکھیں گے کہ عرب دور کے اہل علم کے مجسمے پچھلی صدی میں جگہ جگہ نصب کیے گئے ہیں۔
حتیٰ کہ غرناطہ کے قریب ایک ساحلی مقام پر عبدالرحمن اوّل کا بہت بڑا مجسمہ ایستادہ کیا گیا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سمندری سفر طے کر کے اموی شہزادہ عبدالرحمان اوّل سپین کی سرزمین پر ُاترا تھا۔“
یوں ہی باتیں کرتے کرتے اور سڑکوں کی طرف نظر دوڑاتے مجھے لطف آ رہا تھا۔
ادھر عاصم بہت تل ملا رہا تھا۔ اسے بے چینی کا سامنا تھا۔ اور وہ بار بار ٹوٹو کا الاپ گائے جا رہا تھا۔
”ٹوٹو نہ میرے بغیر کچھ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے۔ مجھے بڑی پریشانی ہوتی ہے۔
میرا اس کے سوا کوئی دوسرا ہم پیالہ بھی تونہیں۔“
ابھی ہم ٹوٹو کے بارے میں بات ہی کر رہے تھے کہ ٹیکسی ایک فلیٹ کے سامنے آ رکی۔
ہم دونوں سیڑھیاں چڑھ کے اوپر فلیٹ کی طرف بڑھے۔ مجھے امید تھی کہ میرے گلے میں ٹوٹوپھولوں کے ہار ڈالے گا۔ ممکن ہے کہ وہ ایک فوج ظفر موج کے ساتھ استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ہمارا منتظر ہوکیونکہ عاصم سے پہلی بار براہ راست پاکستان سے کوئی ملنے آ رہا تھا۔
میرا یہ خیال اس لیے بلندی پرواز کو چھو رہاتھا کیونکہ عاصم نے ٹوٹو اور اپنی محبت کا جونقشہ کھینچا تھا اس سے یہی ظاہر تھا کہ دونوں یک جاں اور دو قالب ہیں۔
جوں ہی ہم فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پہلی منزل پر پہنچے اورعاصم نے فلیٹ کا دروازہ کھولا تو ہمارے سامنے ایک بڑا بلا موجود تھا۔
عاصم کو دیکھتے ہی بلّا عاصم کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گیا۔عاصم نے اس بلّے کو اٹھایا، پسکارا، اپنی گود میں لیا اور بولا:
”ٹوٹو میں اگیا ہوں۔“
ٹو ٹو عاصم کے اس پالتو بلے کا نام تھا۔جوسپین میں اس کی جان تھا جس میں اس کی جان اٹکی ہوئی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
![](https://dailyaftab.pk/wp-content/uploads/2025/02/Bullas-Murcia.jpg)