ضیا محی الدین…فن و ادب کااِک عہد

راجہ نوید:
ضیا محی الدین پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں20 جون 1931 میں پیدا ہوئے۔ضیا محی الدین پانچ بہنوں کے سب سے چھوٹے بھائی تھے ،ان سے پہلے ان کے تین بھائی وفات پاچکے تھے۔ان کے والدگرامی خادم محی الدین تدریس ناصرف موسیقی اور ڈرامے کے شعبوں سے وابستہ تھے بلکہ موسیقی اور ڈرامے کے موضوع پر چند کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ضیا ان کے اکلوتے بیٹے تھے تو ان کو خواہش تھی کہ وہ بھی ان تمام شعبوں میں نام پیدا کریں۔
ضیا محی الدین نےسینٹرل ماڈل سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی سٹیج پر بطور چائلڈ ایکٹر قدم رکھ دیا تھا۔بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سےانھوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔گریجویشن کے بعد وہ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہو گئے جہاں انہیں پطرس بخاری، رفیع پیر، ذوالفقار علی بخاری ،رشید احمد اور شوکت تھانوی، اعجاز بٹالوی، ضیا جالندھری اور ظہور آذر جیسی شخصیات کی رفاقت میں پھلنے پھولنے کا موقع ملا ۔
50 کی دہائی کے اوائل میں انہیں کولمبو پلان کے تحت آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن میں تربیت کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس فیلوشپ نے ضیا محی الدین کی زندگی بدل دی۔ضیا محی الدین کہتے ہیں کہ ’آسٹریلیا میں مجھے احساس ہوا کہ میری منزل ریڈیو نہیں تھیٹر ہے۔‘ چنانچہ وہ ایک طرف براڈ کاسٹنگ کی تربیت حاصل کرتے رہے اور دوسری طرف بطور ایکٹر، ڈائریکٹر اور مصنف تھیٹر میں بھی حصہ لیتے رہے۔ آسٹریلیا میں قیام کے دوران ہی انھوں نے ریڈیو پاکستان کو اپنا استعفیٰ بھجوا دیا۔آسٹریلیا میں قیام کے دوران ہی انھیں افسانہ نگاری کا شوق چڑھا، ان کی کچھ کہانیاں لاہور کے ادبی پرچوں میں شائع بھی ہوئیں مگر بعد میں انھوں نے اپنی ان تمام کہانیوں کو ڈس اون کر دیا۔
ضیا محی الدین لندن میں رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس سے وابستہ ہوئے، جس نے ان کے انداز زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ اب ڈرامہ ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ وہ بی بی سی سے بھی بطور پروڈیوسر وابستہ ہوئے، جہاں انھوں نے ڈیڑھ سال بطور پروڈیوسر خدمات انجام دیں۔ 1960 میں انھیں انگلینڈ سے آئی ہوئی ایک ٹیم نے ای ایم فارسٹر کے ناول اے پیسج ٹو انڈیا پر بننے والی فلم کے لیے منتخب کر لیا اور انھیں ڈاکٹر عزیز کا کردار عطا کیا۔ہالی ووڈ میں کام کرنے والے پہلے پاکستانی اداکارکا اعزاز حاصل ہوا۔ اس فلم نے ضیا محی الدین کی شہرت کے ساتویں آسمان پہنچا دیا اور وہ ایک بین الاقوامی اداکار کے طور پر پہچانے جانے لگے ۔اے پیسج ٹو انڈیا کے بعد ان کی اگلی فلم لارنس آف عربیہ تھی، اس فلم میں انھوں نے ایک گائیڈ کا کردار ادا کیا۔
1971 میں ضیا محی الدین نے پاکستان ٹیلی وژن کو ایک سٹیج پروگرام کا آئیڈیا پیش کیا ۔جس کا پہلا پروگرام جنوری 1971 میں نشر ہوا۔ اس پروگرام کے ذریعے ضیا محی الدین اپنی شہرت کے بام عروج پر پہنچ گئے۔ یہ پاکستان ٹیلی وژن پر پیش کیا جانے والا پہلا سٹیج پروگرام تھا، اس پروگرام میں جن شخصیات نے شرکت کی ان میں جوش ملیح آبادی، مشتاق احمد یوسفی، خوش بخت عالیہ، محمد علی، شمیم آرا، وحید مراد، صبیحہ خانم، حفیظ جالندھری، رونا لیلیٰ، نیر سلطانہ، نیلو، منور ظریف، ناہید صدیقی، مہاراج کتھک، اعجاز حسین بٹالوی، اشفاق احمد، صفدر میر اور نور جہاں غرض اس زمانے کی ہر اہم شخصیت شامل تھیں۔
انھوں نے چند فلموں میں بھی مرکزی کردار ادا کیے جن کے نام مجرم کون؟ اور سہاگ تھے مگر ضیا محی الدین پاکستانی فلمی صنعت کے معیارات پر پورا نہ اتر سکے۔سنہ 1975 کے لگ بھگ ضیا محی الدین پی آئی اے آرٹ اکیڈمی سے بطور ڈائریکٹر وابستہ ہوئے۔ اس اکیڈمی کے ذریعے ضیا محی الدین نے ایران، مصر، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، کوریا، چین، سپین، الجزائر، مراکش، تیونس، اردن، روس، مالٹا، فرانس، جاپان غرض دنیا بھر میں پاکستانی ثقافت کو متعارف کروایا۔
ضیا محی الدین مستقل طور پر برمنگھم میں مقیم ہو گئے اور گاہے گاہے وطن بھی آتے رہے جہاں انھوں نے کچھ ٹیلی وژن پروگراموں میں بھی حصہ لیا ۔کچھ عرصہ گمنامی کے بعد مگر ایک اور روپ میں نمودار ہوئے اور اپنے مداحین کو ایک بار پھر مسحور بنا ڈالا۔ مختلف ادبی تقریبات میں انہوں نے ”پڑھنت“ کو متعارف کروایا جس میں وہ سال کی آخری شام 31 دسمبر کو اردو کے نثری اور شعری شاہکاروں کو سٹیج پر پیش کرتے تھے۔
سنہ 2004 میں ضیا محی الدین کو کراچی میں پرفارمنگ آرٹس کا ایک ادارہ قائم کرنے کی پیش کش ہوئی۔ ضیا محی الدین نے یہ پیشکش قبول کی اور یوں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کا وجود عمل میں آیا۔ ضیا محی الدین کی عمر اب 72 سال ہو چکی تھی مگر پھر بھی وہ 18 سال تک اس ادارے میں خدمات انجام دیتے رہے اور کراچی کی نئی نسل کو تھیٹر ، موسیقی اور اداکاری کا ایک شان دار ادارہ دینے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ ادارہ اب کراچی کی شناخت بن چکا ہے۔
وہ تقریباً 67 سال تھیٹر اور فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے۔ انہوں نے مختلف اخبارات کے لیے کالم بھی لکھے۔ پاکستانی فلموں اور ٹی وی شوز کے علاوہ ضیا محی الدین برطانوی سنیما اور ٹیلی ویژن پر بھی جلوہ افروز ہوئے۔ ان کے بہترین کاموں میں لارنس آف عریبیہ (1962)،بیہولڈ دی پیلے ہارسین(1964) اورامیکولیٹ کنسیپشن (1992) شامل ہیں۔افسوس ناک بات یہ ہے تھیٹر کہ جس ہنر کے ضیا صاحب ماہر تھے ہمارے ہاں مقبول نہیں ہو پایا۔ یہاں کی فلم انڈسٹری بھی ان کی صلاحیتیں آزمانے کے قابل نہیں تھی۔
ذاتی زندگی کی بات کی جائے توضیاء محی الدین نے تین شادیاں کی تھیں۔ ان کی پہلی اہلیہ کا نام سرور تھا جن سے ان کے دو بیٹے ہیں۔ دوسری بیوی ناہید صدیقی تھیں اور تیسری عذرا محی الدین جن سے ان کے ایک بیٹی نے جنم لیا۔ وہ کافی عرصے سے بیماری سے لڑ رہے تھے۔گزشتہ ماہ انہیں پیٹ میں درد اور بخار کی شکایت کے بعد کراچی کے ایک اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ جہاں ان کی طبیعت بگڑ گئی اور کچھ جراحی کے بعد انہیں لائف سپورٹ سسٹم میں منتقل کر دیا گیا۔ سٹیج پر اپنے فن کے ان مٹ نقوش رقم کرنے والا یہ فنکار 13 فروری کو ہمیشہ کے لیے سٹیج کے پیچھے چلا گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں