شب برات، ہجری سال کی مقدس ترین راتوں میں سے ایک ہے.شعبان المعظم قمری سال کا آٹھواں مہینہ ہےجس کی 15ویں رات کو منائی جاتی ہے۔شب برات کو “راتِ تقدیر اور مغفرت” کہا جاتا ہے۔ یہ گہری روحانی عکاسی کا وقت ہے جب عقیدت مند رات کو عبادت میں گزارتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے رحمت، برکت اور بخشش کی تلاش میں رہتے ہیں.اس مبارک رات کو شب برات کہنا فارسی زبان کی ترکیب ہے۔ شب کا معنی رات اور برات کا معنی نجات حاصل کرنا، بری ہونا ہے۔ عربی زبان میں اسے لیلۃ البرات کہا جاتا ہے۔ لیلۃ بمعنی رات جبکہ البرات کا معنی نجات اور چھٹکارا کے ہیں۔ علماء کرام بیان فرماتے ہیں کہ چونکہ یہ رات گناہوں سے چھٹکارے اور نجات پانے کی رات ہے بایں وجہ اسے شب برات کہا جاتا ہےشب برات پورے جنوبی ایشیاء بشمول ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، آذربائیجان اور ترکی کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیائی ممالک جیسے ازبکستان، تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان اور کرغزستان میں بڑی عقیدت کے ساتھ منائی جاتی ہے۔
اس مقدس رات میں لوگ نماز پڑھنے اور اللہ سے مغفرت طلب کرنے کے لیے مساجد میں جمع ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر بھی ان کی طرف سے دعا کرنے جاتے ہیں۔ خیراتی کام، جیسے کہ غریبوں میں کھانا اور رقم تقسیم کرنا، بھی منانے کا ایک لازمی حصہ ہیں۔تقریبًادس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں.
حضرت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: میں نے ایک رات سرور کائنات ﷺ کو نہ دیکھا تو بقیع پاک میں مجھے مل گئے۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا، کیا تمہیں اس بات کا ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول ( ﷺ) تمہاری حق تلفی کریں گے۔ میں نے عرض کیا، یارسول اللہ! ﷺ میں نے خیال کیا تھا کہ شاید آپ ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔ تو آقائے دو جہاں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے، پس بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ گنہگاروں کو بخشش دیتا ہے۔ (سنن الترمذی، رقم الحديث: 739)
دوسری حدیث میں ہے:”اس رات میں اس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے،اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں،اورتمہارارزق اتاراجاتاہے۔“
ایک روایت میں ہے کہ” اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے، وہ یہ ہیں:مشرک،والدین کانافرمان،کینہ پرور،شرابی،قاتل،شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی ،جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نصف شعبان کی رات رحمت خداوندی آسمان دنیا پر نازل ہوتی ہے۔ پس ہر شخص کو بخش دیا جاتا ہے سوائے مشرک کے یا جس کے دل میں کینہ ہو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے:” کون ہے جوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟”
ان احادیثِ کریمہ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوربزرگانِ دین رحمہم اللہ کے عمل سے اس رات میں تین کام کرنا ثابت ہے:
قبرستان جاکر مردوں کے لیے ایصالِ ثواب اور مغفرت کی دعا کی جائے،لیکن یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شبِ برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے؛ اس لیے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباعِ سنت کی نیت سے چلاجائے تو اجر و ثواب کاباعث ہے،لیکن پھول پتیاں،چادر چڑھاوے،اور چراغاں کااہتمام کرنا اور ہرسال جانے کولازم سمجھنا،اس کو شب برأت کے ارکان میں داخل کرنا ٹھیک نہیں ہے۔جو چیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہیے، اس کانام اتباع اوردین ہے۔
اسلامک ریلیف ورلڈ وائیڈ کا کہنا ہے کہ “شبِ برات، جو 15 شعبان کو آتی ہے، 14 فروری 2025 کو منائے جانے کی توقع ہے۔ تاہم، چاند نظر آنے کے لحاظ سے صحیح تاریخ مختلف ہو سکتی ہے.