سنگین اعصابی بیماری ’ایمٹروفِک لیٹرل سِکلوریسِس‘ (اے ایل ایس) (amyotrophic lateral sclerosis) کی بیماری کی قبل از وقت تشخیص اور اس کے علاج میں پیش رفت سامنے آئی ہے، تاہم ماہرین نے اس پر مزید تحقیق کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اے ایل ایس کی بیماری میں موٹر نیورونز کی موت واقع ہو جاتی ہے، جس سے جسم کی حرکات و سکنات میں آہستہ آہستہ کمی آ جاتی ہے، انسان مفلوج بن جاتا ہے اور اس بیماری کوموٹر نیورون ڈیزیز بھی کہا جاتا ہے۔
اگرچہ یہ بیماری فالج نہیں، تاہم اس کی شدت اور خطرہ فالج جیسا ہی ہے، انسان کا اعصابی نظام مکمل طور پر ناکارہ بن جاتا ہے اور متاثرہ انسان 10 سال قبل ہی موت کا شکار بن جاتا ہے۔
اے ایل ایس کا بھی اس وقت تک کوئی مستند علاج موجود نہیں، تاہم ڈاکٹرز علامات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف ادویات سے مرض کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تاہم اب فرانسیسی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے خون کے ٹیسٹ کے ذریعے چند ایسی پروٹینز کی نشاندہی کی ہے، جن سے اے ایل ایس بیماری کا پہلے سے پتا لگایا جا سکتا ہے۔
طبی جریدے میں شائع تحقیق کے مطابق فرانسیسی ماہرین نے 139 اے ایل ایس بیماری میں مبتلا مریضوں اور 70 ایسی ہی دوسری بیماریوں میں مبتلا افراد پر تحقیق کی۔
ماہرین نے تمام رضاکاروں کے بلڈ ٹیسٹ کیے اور انہوں نے خون میں (neurofilament light chain protein) کو جانچا۔
ماہرین نے پایا کہ اے ایل ایس بیماری کے شکار افراد کے خون میں نیورونز کو متاثر کرنے والی دو پروٹینز کی زائد مقدار تھی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بیماری ان پروٹینز کی ذیادتی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
ماہرین نے مجموعی طور پر تین پروٹینز (glial acidic proteins) اور (phosphorylated tau 181) اور (Neurofilament light chain proteins) کی نشاندہی کی جو کہ اے ایل ایس اور اس سے ملتی جلتی بیماریوں کا سبب بنتی ہیں۔
ماہرین نے جب تمام پروٹینز کا تمام رضاکاروں کے بلڈ ٹیسٹ سے موازنہ کیا تو معلوم ہوا کہ جن افراد میں (Neurofilament light chain proteins) کی اضافی مقدار ہوتی ہے، وہ نہ صرف اے ایل ایس کے شکار ہوتے ہیں بلکہ ان میں بیماری کی شدت بھی تیزی سے بڑھتی ہے۔
ماہرین نے 12 سال بعد دوبارہ تمام افراد کے خون کے ٹیسٹ بھی کیے، تب تک اے ایل ایس بیماری میں مبتلا 86 فیصد رضاکار انتقال کر چکے تھے۔
ماہرین نے بتایا کہ (Neurofilament light chain proteins) نامی پروٹینز کی زیادتی سے نیورونز کے سیلز ختم ہونے لگتے ہیں یا وہ سکڑنے لگتے ہیں، جس سے اے ایل ایس بیماری ہوتی ہے۔
ماہرین نے مذکورہ معاملے پر مزید تحقیق کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ خون کا ٹیسٹ اے ایل ایس جیسے مرض کی تشخیص اور علاج کا طریقہ بن سکتا ہے۔