ماہرین نے ملک بھر کے اسپتالوں میں فارمیسی کے ماہرین اور تربیت یافتہ افراد کی عدم موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں سالانہ 5 لاکھ سے زائد افراد طبی غلطیوں اور خاص طور پر ادویات کے غلط استعمال کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
کراچی میں الخدمت فارمیسی سروسز کے زیر اہتمام منعقدہ پہلی میڈیکیشن سیفٹی کانفرنس میں صحت کے ماہرین، فارماسسٹ اور دوا ساز صنعت کے رہنماؤں نے شرکت کی اور فارماسسٹ کے بغیر چلنے والے میڈیکل اسٹورز، فارمیسیز اور دوائیوں کے غلط استعمال کے سنگین نتائج پر روشنی ڈالی۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عاصم رؤف نے اعتراف کیا کہ دوائیوں کے غلط استعمال کا مسئلہ عالمی نوعیت کا ہے لیکن پاکستان میں ادویات کے غلط استعمال کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات اور واقعات کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہو پاتی کیونکہ ان کی رپورٹنگ کم ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر دوائیوں کا غلط استعمال روکنے کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہوتے جبکہ فارماسسٹ اس نقصان کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اسپتال یا فارمیسی فارماسسٹ کے بغیر نہیں چلنی چاہیے اور ہم ڈبلیو ایچ او کی سفارشات کے مطابق دوائیوں کا محفوظ استعمال یقینی بنانے پر کام کر رہے ہیں۔عاصم رؤف نے طبی ماہرین پر زور دیا کہ ادویات کے استعمال سے ہونے والے ری ایکشن اور طبی مسائل کی نشان دہی کریں تاکہ فارماکوویجیلنس سسٹم کو مضبوط بنایا جا سکے اور دوائیوں کے غلط استعمال سے ہونے والی اموات کو روکا جا سکے۔
الخدمت فارمیسی سروسز کے ڈائریکٹر سید جمشید احمد نے پاکستان میں فارمیسیز کی حالت زار پر تنقید کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ملک بھر کی 60,000 فارمیسیز میں سے صرف 3,000 میں مستند فارماسسٹ موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ دیگر 95 فیصد فارمیسیز کو گروسری اسٹورز کی طرح غیر تربیت یافتہ عملہ چلا رہا ہے جو اکثر غلط دوائیاں دے کر مہلک نتائج کا باعث بنتا ہے۔
سید جمشید احمد نے مطالبہ کیا کہ فارماسسٹ کے بغیر فارمیسی چلانے کو قانونی جرم قرار دیا جائے۔