اسلام آ باد:وفاقی وزیر اطلاعات عطاءتارڑنے کہا ہے کہ انتشاری ٹولے کا کہنا ہے کہ پاکستانی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے، یہ فوج کو کمزور کرنے کے خواہش مند ہیں، یہ پاکستانی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا تو کہتے ہیں لیکن فلسطین کے معاملے پر نہیں بولتے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت کے وزراء کا سول نافرمانی کی کال کی مخالفت کرنا اچھی بات ہے، بانی پی ٹی آئی نے نفرت کے جو بیج بوئے آج وہ کاٹ رہے ہیں، آج پی ٹی آئی خود تقسیم کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ کے ساتھ مل کر صحافیوں کے خلاف شروع کی گئی ہے اس مہم پر بھرپور کارروائی کی جائے گی، صحافیوں کے گھروں اور خاندانوں کی تفصیلات شیئر کرنے پر ایکشن ہوگا اس پر زیرو ٹالرینس ہے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ انتشاری ٹولے کا کہنا ہے کہ پاکستانی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے، یہ پاکستانی فوج کے خلاف بیرونی ایجنڈے کا پرچار کر رہے ہیں، یہ پاکستانی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا تو کہتے ہیں لیکن فلسطین کے معاملے پر نہیں بولتے، فلسطین پر اے پی سی کا انعقاد ہوا اور انہوں نے اس میں شرکت نہیں کی، گولڈ اسمتھ کی طرف سے انہیں فلسطین کے حق میں کسی بھی مہم میں شرکت سے منع کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پاکستان اور اس کی افواج کے خلاف بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، فوج اور عوام کے درمیان دراڑ پیدا کرنے والے ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، فوج اگر مضبوط ہے تو ملک مضبوط ہے، فوج مضبوط نہ ہو تو ملک بھی مضبوط نہیں ہوتا،
بیرونی ممالک میں ہماری فوج کو مانا جاتا ہے، پی ٹی آئی فوج کو کمزور کرنا چاہتی ہے تاکہ بیرونی قوتیں اس سے فائدہ اٹھا سکے۔
انہوں ںے کہا کہ یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں انتشار پیدا ہو، 9 مئی اور 26 نومبر کو یہ ملک میں انارکی پھیلانا چاہتے تھے، انتشار پھیلانے والے کسی ایک شخص کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا، پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں یہ انتشاری ٹولہ ہے، انتشار اور انارکی پھیلانے والے کبھی بھی اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوں گے، کسی کو ملک کے خلاف سازش اور انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ آپریشن گولڈ اسمتھ ہر ایک جانتا ہے، یہ آپریشن کیوں اور کس نے شروع کیا تھا، حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار بہت دہائیوں پہلے یہ بات کر چکے ہیں اور پی ٹی آئی فوج کو کمزور کرنے کے درپے ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا اجلاس ہوا، علماء کرام یہی چاہتے ہیں کہ مدارس کا انتظام وزارت تعلیم کے تحت رہے، مدارس میں اصلاحات کا سلسلہ 2018ء سے شروع ہے، 18 ہزار مدارس اس نظام کے تحت رجسٹرڈ ہیں، اس مسئلے کا ایسا حل ہونا چاہیے جو سب کو قابل قبول ہو، مدارس بل میں جب قانونی پیچیدگیاں سامنے آئیں تو علماءکرام نے اس پر بات کی، مولانا فضل الرحمان ہمارے لئے قابل احترام ہیں مدرسے کے کسی طالب علم کا نقصان نہیں ہونا چاہیے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم نے اخبارات اور ٹیلی ویژن پر کوئی ٹیکس نہیں لگنے دیا، پی بی اے اور اے پی این ایس کو چاہیے کہ وہ تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کو ممکن بنائیں، جب بھی پی بی اے اور اے پی این ایس سے ملاقات ہوتی ہے اس میں سب سے سرفہرست معاملہ ملازمین کی تنخواہیں ہوتی ہیں۔