13 نومبر کو وسطیٰ پنجاب کے شہر کامونکی کے ایک نواحی قصبے سے گزرنے والے سیم نالے کے قریب کچھ بچے کھیل رہے تھے جب اُنھیں پانی میں تیرتا ہوا ایک مشکوک بیگ نظر آیا۔
ٹبہ محمد نگر نامی اُس علاقے میں کپڑے کا یہ بیگ سیم نالے کے کنارے ایک درخت کے ساتھ الجھ کر وہاں رُک سا گیا تھا۔ بچوں نے اپنی سی تفتیش کی اور بیگ میں انسانی اعضا دیکھ کر شور مچا دیا۔
یہ صورتحال قریب سے گزرنے والے افراد کے لیے عجیب و غریب تھی، چنانچہ ایک مقامی شخص نے اس واقعے اطلاع فوراً مقامی تھانے کے اہلکاروں کو بذریعہ فون دی اور جلد ہی پولیس کی ایک گاڑی موقع پر پہنچ گئی۔
وہاں پہنچنے والی پولیس ٹیم کے انچارج سب انسپکٹر نعمت علی کے مطابق اس بیگ میں انسانی اعضا نظر آ رہے تھے۔ بظاہر بیگ میں ایک لاش کے ٹکڑے تھے جن میں سر، دو ٹانگیں، دونوں بازو اور دھڑ کٹے ہوئے پڑے تھے۔
پولیس کے مطابق مقتول کے چہرے پر ہلکی داڑھی تھی اور بظاہر اس کی عمر 25، 26 سال کے لگ بھگ معلوم ہو رہی تھی۔
اس واقعے کی اطلاع جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ پولیس نے مقتول کی معلومات حاصل کرنے کے لیے ابتدائی طور پر ٹبہ محمد نگر اور گرد و نواح کے دیہاتوں کی مساجد میں اعلانات کروائے اور اس پراسرار قتل کا مقدمہ سب انسپکٹر نعمت علی کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا گیا۔
مقدمے کے اندراج کے ساتھ اس لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے سول ہسپتال بھجوایا گیا جبکہ مقتول کے چہرے کی تصویر سوشل میڈیا پر ڈال کر لواحقین کی تلاش شروع کی گئی۔
سوشل میڈیا پر یہ تصویر پوسٹ کیے جانے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی ایک شخص نے جائے وقوعہ سے 325 کلومیٹر دور واقع پنجاب کے ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا سے پولیس سے رابطہ کیا۔فون کرنے والے نے اپنی شناخت قتل ہونے والے شخص ندیم سرور کے بھائی کے طور پر کروائی۔
مقتول شخص (ندیم) کے بھائی نے پولیس کو بتایا کہ اُن کے بھائی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بطور ویٹر عارضی ملازمت کرتے تھے۔
بھائی نے پولیس کو مزید آگاہ کیا کہ انھوں نے 10 نومبر کو اسلام آباد کے تھانہ شہزاد ٹاؤن میں اپنے بھائی کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا تاہم لگ بھگ ایک ماہ گزرنے کے باوجود اسلام آباد پولیس انھیں نہیں ڈھونڈ سکی تھی۔
بھائی کی گمشدگی کی اسلام آباد میں درج کروائی گئی ایف آئی آر میں بتایا گیا تھا کہ ’ندیم سرور 9 نومبر کی شام پانچ بجے آرمی میس ہیڈکوارٹر سدھراں پر کام کے لیے گئے۔ وہاں سے انھوں نے ایک دن کی چھٹی لی۔۔۔ 10 نومبر کو صبح 10 بجے تک اُن کا موبائل فون آن رہا۔ اس کے بعد سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ دونوں نمبر بند جا رہے ہیں جس سے گھر کے افراد پریشان ہیں۔۔۔‘
پوسٹ مارٹم کے بعد ندیم سرور کے بھائی اُن کی میت کو تدفین کے لیے بورے والا میں اپنے آبائی علاقے لے گئے۔
مگر تدفین کے بعد بھی کئی سوالات باقی تھے جیسا کہ اسلام آباد میں ملازمت کرنے والے ایک نوجوان کی لاش آخر کامونکی سے کیسے ملی اور یہ کہ وہ کیا حالات تھے جن میں مقتول شخص اس شہر تک پہنچا جہاں اس کا قتل ہوا؟انھی سوالات کا جواب جاننے کے لیے مقامی پولیس اور کرائم سین انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ کو اپنی تفتیش کا دائرہ وسیع کرنا پڑا۔
’ندیم کے موبائل پر موصول ہونے والی طویل کالز‘
پولیس کی مشکل یہ تھی کہ انھیں بیگ سے محض ندیم کی لاش کے ٹکڑے ملے تھے جبکہ اُن کا موبائل فون اور ذاتی استعمال کی دیگر اشیا کو کچھ پتا نہیں تھا۔پولیس نے بھائی سے ندیم کے زیرِ استعمال دونوں فون نمبرز حاصل کیے۔
اس کیس کی تفتیش سے منسلک افسران کے مطابق موبائل فون ریکارڈ سے پولیس کو معلوم ہوا کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران ندیم کو کن افراد کی طرف سے کالز موصول ہوئی تھیں۔
اُن کے مطابق 9 نومبر (ندیم کی گمشدگی کا دن) کو ایک ہی نمبر سے وقفے وقفے سے کئی کالز موصول ہوئی تھیں اور اُن کالز کا دورانیہ موصول ہونے والی باقی کالز سے زیادہ تھا۔
پولیس کے مطابق یہ نمبر ٹبہ محمد نگر کی رہائشی خاتون کے نام پر رجسٹرڈ تھا جس پر پولیس نے انھیں اور اُن کے والد کو شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا اور تھانے بلایا۔