کرسمس، 25 دسمبر کو کیوں ؟..چند تاریخی حقائق ..!
رانا شفیق پسروری
2000ء کے آخر میں پاکستان کے ایک ماہنامہ میں جرمن سے ایک صاحب نے مکتوب لکھا تھا اور بتایا تھا کہ ”سن325مسیح میں روما کی حکومت نے وقت کے بڑے پادری ”ڈیوینس ایکسی گس“ (Dionysius Exiguss) کو ذمہ داری سونپی کہ وہ ایک کیلنڈر تیار کرے، جو عیسوی کیلنڈر کہلائے۔ مگر بڑے پادری کے حساب میں غلطی ہو گئی اور وہ حضرت عیسیٰ ؑ کی زندگی کے پانچ سال کھا گیا۔ یعنی محققین کی رائے کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ6 سال قبل مسیح میں پیدا ہوئے تھے اور ہم ڈیوینس ایکسی گس کے بتائے کیلنڈر کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں“۔
انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کے مقالہ ”یسوع مسیح“(Jesus Christ) میں لکھا ہے کہ ”حیات مسیح پر لکھنے کی کوششیں ترک کر دی جائیں کہ اس کے لئے مواد موجود نہیں، ان کی زندگی کے ان دنوں کی تعداد50سے زیادہ نہیں، جن کے متعلق ہمارے پاس کچھ ریکارڈ ہے“۔
ماضی قریب کے معروف انگریز مسیح مبلغ ڈین انجی(Dean lnge) نے بھی اپنی کتاب
”Chrstian Ethics and Modern Problems”
میں لکھا ہے کہ”حضرت مسیحؑ کی کوئی حقیقی سوانح عمری کبھی نہیں لکھی گئی“۔
صرف انجیل میں حضرت عیسیٰ ؑ کے حالات و نظریات اور عقائد کا بیان ہے، مگر وہ حالات مفصل نہیں۔
حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کے دن اور پھر اسی حوالے سے کیلنڈر کی تقویم کے بارے میں سوالات ایک اور وجہ سے بھی اُٹھ رہے ہیں۔ عام طور پر معروف ہے کہ آپ کی تاریخ پیدائش 25دسمبر ہے اور پوری دنیا میں اسی حوالے سے کرسمس کا دن منایا جاتا ہے جبکہ لوقا کی انجیل (باب2آیت8) کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کے بارے میں لکھا ہے:”اسی علاقے میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلے کی نگہبانی کر رہے تھے“۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ؐ کی پیدائش کا موسم ایسا تھا کہ جب لوگ اپنے جانوروں کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے ہوتے تھے، جبکہ دسمبر کا مہینہ شدید سردی کا ہوتا ہے۔ فلسطین میں تو دسمبر بارش اور سخت دھند کا مہینہ ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ حضرت مریمؑ، آپؑ کی ولادت کے وقت کھجور کے درخت کے نیچے گئیں۔ اس وقت کھجور پر پھل موجود تھا“۔ کھجور پر پھل کا موسم جون، جولائی میں ہوتا ہے۔ ایک عیسائی مفسر”اے جے گریو ایم اے ڈی A.JGRAW.M.A.D“ تفسیر ”پیکن“ میں انجیل لوقا کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ”یہ موسم، ماہ دسمبر کا نہیں ہو سکتا۔ ہمارا کرسمس ڈے مقابلتاً بعد کی ایک روایت ہے، جو کہ پہلے پہل مغرب میں پائی گئی“۔ اسی طرح بشپ جارنس اپنی کتاب (Rise of Christianity) میں تحریر کرتے ہیں کہ”اس تعین کا کوئی قطعی ثبوت نہیں کہ25دسمبر ہی مسیح کی پیدائش کا دن ہے اگر ہم لوقا کی کہانی پر یقین کر لیں کہ موسم میں گڈریئے رات کے وقت اپنی بھیڑوں کی نگرانی بیت اللحم کے قریب کھیتوں میں کرتے تھے تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ ؑ کی پیدائش موسم سرما میں نہیں ہوئی کہ جب رات میں ٹمپریچر اتنا گر جاتا ہے کہ یہودیہ کے پہاڑی علاقے میں برفباری عام بات ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کرسمس ڈے کافی بحث و تمحیص کے بعد 300ء میں متعین کیا گیا ہے“۔
ایک رسالہ مینار نگہبانی مجریہ جنوری 1999ء کے صفحہ29پر لکھا ہے:”ہسٹری ٹو ڈے کے مطابق روم کے بادشاہ”اورلین“ نے پال میرا کی ملکہ ”لوبیا“ کو شکست دینے کے بعد وہاں کے مندرسے سورج دیوتا کے مجسموں کو اٹھایا اور اپنے نئے بنائے گئے مندر میں رکھا تو 674ء میں 25دسمبر کو سورج دیوتا کا تہوار منایا گیا۔ بعد ازاں جب روم کے حکمرانوں نے مسیحیت قبول کر لی تو یہی تہوار مسیح کے جنم دن کے طور پر منانے لگے تاکہ پرانے تہواروں کی مقبولیت سے فائدہ اٹھا کر دین مسیح کو رواج دیا جا سکے“۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ 25 دسمبر یوم ولادت مسیح کس بنیاد پر منایا جاتا ہے اور یہ دن بطور ولادت مسیح کس نے تعین کیا ہے؟کیا مروجہ انا جیل میں کہیں یہ دن منانے کا کوئی حکم موجود ہے؟ حضرت عیسیٰؑ نے بذات خود اپنی زندگی میں 25 دسمبر بطور کرسمس ڈے منایا؟ اس کے بعد عیسیٰؑ کے حواریوں کو دیکھئے کیا انہوں نے کرسمس ڈے کا اہتمام کیا۔ حواریوں کو بھی چھوڑیئے سینٹ پال جس نے دین مسیح کی تجدید کی اس کے خطوط میں بھی ایسا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ حیرت کی بات یہ ہے تاریخ ولادت یسوع مسیح سے صحیح معنوں میں کوئی باخبر نہیں ملتا۔ تاریخ دن تو دور مہینہ اور سال ولادت کا بھی حتمی علم نہیں۔
حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کی تاریخ اور جائے پیدائش غیر یقینی ہے مرقس اور یوحنا اپنی انجیل میں کچھ نہیں لکھتے۔ ہماری معلومات کے ذرائع صرف یسوع مسیح کی پیدائش اور بچپن کے وہ از حد متضاد بیانات ہیں جن میں ایک طرف تو متی ابواب 2-1 کی وہ کہانی ہے جس میں یسوعؑ کی پیدائش اور بچپن کو ہیروڈ اول کے عہد اور اس کی حکومت بدلنے (4 ق م) سے منسوب کیا گیا ہے اور دوسری طرف لوقاباب 2 کی رو سے یسوعؑ کی پیدائش شہنشاہ اوگسٹس کے عہد میں یہودیہ میں ہونے والی مردم شماری 6ء سے منسوب کی گئی ہے اس بیان میں یہ بات از حد اہم ہے کہ ہیروڈ بادشاہ جس کے عہد میں انا جیل میں یسوعؑ کی پیدائش بیان کی گئی ہے۔ یسوعؑ کے پیدا ہونے سے تقریباً دس سال قبل مر چکا تھا۔ یسوعؑ مسیح کی تاریخ ولادت کا کہیں بھی پتہ نہیں چلتا۔ عہد نامہ جدید سے صرف یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس رات گڈریے بھیڑوں کو لئے ہوئے بیت اللحم کے کھیتوں میں موجود تھے لیکن انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں کرسمس ڈے کے آرٹیکل پر لکھنے والے نے اس پر تنقید کی ہے وہ لکھتا ہے کہ ”دسمبر کا مہینہ تو ملک یہودیہ میں سخت سردی اور بارش کا مہینہ ہے ان دنوں میں کس طرح بھیڑیں اور گڈریے کھلے آسمان تلے رہ سکتے ہیں؟ پھر سوچنے کی بات ہے کہ شدید سردی اور برفباری کے اس مہینہ میں کھلے آسمان تلے نو مولود کو چرنی میں کیسے رکھا جا سکتا ہے؟“اس کے برعکس اگر آپ قرآن کریم کو دیکھیں تو اس سلسلہ میں سورہئ مریم پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مریمؑ کو دردزہ کی تکلیف زیادہ بڑھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت کی کہ کھجوروں کے تنے کو ہلا تازہ پکی ہوئی کھجوریں تم پر گریں گی وہ کھاؤ اور چشمہ کا پانی پی کر طاقت حاصل کرو اب فلسطین میں موسم گرما کے وسط یعنی جون جولائی میں ہی کھجوریں پکتی ہیں اس سے بھی یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت مریمؑ کی ولادت جون یا جولائی کے کسی مہینے میں ہوئی تھی اور ظاہر ہے گڈریے بھی گرمی کے موسم میں ہی بھیڑوں کو کھلے آسمان تلے چھوڑ سکتے تھے اور اس مہینہ میں نو مولود کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھنا بھی کوئی معیوب نہیں۔ اگر ہم لوقا کی انجیل پر غور کریں تو بقول لوقا ”چھٹے مہینے“ فرشتہ نے مریمؑ کو خوشخبری دی کہ تو حاملہ ہوگی۔ چھٹے مہینے یعنی جون کے مہینے میں فرشتہ حضرت مریمؑ کو پیغام دیتا ہے کہ تو ”حاملہ ہوگی“ اگر ساتواں مہینہ حمل کا پہلا مہینہ گنا جائے تو ولادت اپریل کے آخر یا مئی کے شروع میں ہوگی حمل دس ماہ کا بھی ہوتا ہے۔ اس طرح جون کا آخر یا جولائی کا شروع بنتا ہے۔ یعنی انجیلی بیان کے مطابق بھی 25 دسمبر تاریخ ولادت غلط ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ رفع عیسیٰ ؑ کے چار صدیوں بعد تک 25 دسمبر تاریخ ولادت مسیح نہیں سمجھی جاتی تھی پھر سیتھا کے ایک راہب بنام ڈایوینسٹیس اکسی گوس (Monk dionysius exgus) 526ء کو تاریخ ولادت مسیح کی تحقیق پر تعین کیا گیا اس نے اپنے حساب سے تاریخ ولادت متعین کر دیا ور اس کے بعد یہی حتمی تاریخ سمجھی جانے لگی کیونکہ حضرت عیسیٰ ؑ سے پانچ صدی قبل سے 25 دسمبر ایک مقدس تاریخ سمجھی جاتی تھی بہت سے سورج دیوتا اسی تاریخ پر پیدا ہونے تسلیم کئے جا چکے تھے اس لئے راہب نے آفتاب پرست اقوام میں عیسائیت کو مقبول بنانے کے لئے حضرت عیسیٰ ؑ کی تاریخ ولادت 25 دسمبر مقرر کر دی کیونکہ 25 دسمبر رومیوں کے ایک دیوتا کی یادگار، تہوار بھی تھا اور یہ ایک مقبول دن تھا اسی لئے اس تاریخ کو ترجیح دی گئی اور لوقا کے بیان کی طرف کسی نے ذرہ بھر توجہ نہ کی۔ پادری جی ٹی مینکی کی مشہور کتاب (The New bible hand book) کا اردو ترجمہ ”ہماری کتاب مقدسہ“ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ پادری جی ٹی مینکی رقمطرار ہیں۔
”مسیح یسوعؑ بیتِ لحم میں جویروشلم سے چھ میل جنوب مغرب کی طرف ہے پیدا ہوا گمان غالب ہے کہ یہ ٹھیک 25 دسمبر کا دن نہیں تھا معلوم ہوتا ہے کہ سن عیسوی سے چند سال پہلے اس کی ولادت ہوئی“۔
جبکہ مسیحی اشاعت خانہ36فروزپور روڈ لاہور کی شائع کردہ کتاب”قاموس الکتاب“ مؤلفہ ایف، ایس خیر اللہ کے ص148-147پر ہے کہ
”کرسمس کا مروجہ نام(بڑا دن ہے)
یہ دن یوم ولادت مسیحؑ کے سلسلے میں منایا جاتا ہے، چونکہ مسیحیوں کے لئے یہ ایک اہم اور مقدس دن ہے۔ اس لئے اسے بڑا کہا جاتا ہے۔رومن کیتھوک اور پروٹسٹنٹ کلیسیائیں اسے 25دسمبر کو مشرقی آرتھوڈوکس کلیسیا6جنوری کو اور ارمینیہ کی کلیسیا19جنوری کو مناتی ہے۔کرسمس کے تہوار کا25دسمبر پر ہونے کا ذکر پہلی بار شاہِ فسطنطین کے عہد میں 325عیسوی کو ہوا۔ یہ بات صحیح طور پر معلوم نہیں کہ اولین کلیسیائیں بڑا دن مناتی تھیں یا نہیں۔ تاہم جب سے یہ شروع ہوا یہ بڑا مقبول ہوا ہے۔ اگرچہ بعض رسومات جو مسیحی نہیں تھیں کرسمس سے منسوب کی گئی ہیں تاہم اب انہوں نے بھی مسیحی رنگ اپنا لیا ہے۔ مثلاً کرسمسِ بڑی(کرسمس کا درخت) اب اس لے یہ مراد لی جاتی ہے کہ یہ خدا کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس کی نعمتوں کی یاددہانی کراتا ہے۔یاد رہے کہ یسوع مسیحؑ کی صحیح تاریخ پیدائش کا کسی کو علم نہیں۔ تیسری صدی میں اسکندریہ کے کلیمنٹ نے ر ائے دی تھی کہ اسے 20مئی کو منایا جائے لیکن25دسمبر کو پہلے پہل رومہ میں اس لئے مقرر کیا گیا تاکہ اس وقت کے ایک غیر مسیحی تہوار، جشن زحل کوSarurnaliaجو راس الجدی کے موقع پر ہوتا تھا۔ پسِ پشت ڈال کر یسوح مسیح کی سالگرہ منائی جائے“۔
قاموس الکتاب کے مصنف پادری ایف ایس خیر اللہ لکھتے ہیں:
”عام خیال یہ ہے کہ عیسیٰ10ء میں پیدا ہوئے علماء انجیل کے مطابق انگریزی حرف A.D سے جو Anno Domina کا مخفف ہے مراد ہے ہمارے خداوند کا سال لیکن جب لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑاس سے چار یا پانچ سال پہلے پیدا ہوئے تو انہیں تعجب ہوتا ہے لیکن سوچ تو یہ ہے کہ عیسوی کیلنڈر چھٹی صدی میں مرتب کیا گیا۔ (راہب ڈیوانیسٹیس اکسی گوس (Mank dionysius exgus) نے 526ء میں حساب لگا کر سنہ عیسوی کا اعلان کیا لیکن بد قسمتی سے اس کے حساب میں چار سال کی غلطی رہ گئی اس نے مسیح کی پیدائش رومی کیلنڈر کے سال 754 میں رکھی لیکن ہیرو دیس اعظم جس نے بیت اللحم کے معصوم بچوں کا قتل عام کیا تھا رومی سال 760 میں فوت ہوا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح کی پیدائش رومی 750 سے کم از کم چند ماہ پہلے ہوئی ہو گی۔ غالباً وہ رومی سن 749 کے شروع میں پیدا ہوئے یعنی 5 ق م کے آخر میں۔ جب اس غلطی کا پتہ چلا تو یہ نا ممکن تھا کہ بے شمار چھپی ہوئی کتابوں میں اس کو درست کیا جائے سوسنہ عیسوی کی یوں ہی رہنے دیا گیا“۔ (قاموس الکتاب ص912)
اسی طرح کی بات پوپ بینڈیکٹ نے اپنی کتاب میں لکھی ہے،جس سے متعلق خبریں شائع ہو چکی ہیں کہ ”حضرت عیسیٰ ؑعلیہ السلام کے بارے میں جو مشہور ہے کہ وہ25 دسمبر کو پیدا ہوئے یہ غیر صحیح ہے اور موجودہ کیلنڈر بھی اپنی تقویم اور تاریخی تعین کے لحاظ سے صحیح نہیں“۔