بچوں کا غصیلا رویہ اور بد مزاجی

اکثر ایک سے تین سال کی عمر کے بچے (Toddlers) معمولی معمولی باتوں پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے مزاج میں بھی شگفتگی کے بجائے بد مزاجی نمایاں ہوتی ہے۔طبی اصطلاح میں اسے Temper Tantrums سے موسوم کیا گیا ہے۔ٹینٹرم ناخوشگوار اور جذباتی رویہ ہے،جو اشتعال سے بھرپور ہوتا ہے۔دراصل یہ رویہ بچوں کی اپنی مخصوص حدود سے آگے نہ بڑھنے پر مایوسی،اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہ کرنے،کچھ جاننے یا اپنے احساسات بیان کرنے کے لئے ذخیرہ الفاظ نہ ہونے کے ردِ عمل میں غصے کا اظہار ہے،جس کے ذریعے وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو سمجھنے یا تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تین سال سے زائد عمر کے بچے بھی اس کیفیت کا شکار ہو سکتے ہیں،کیونکہ ان بچوں نے فی الحال اپنے جذبات کے اظہار یا نظم و ضبط کے طریقے نہیں سیکھے ہوتے ہیں۔

ایک سے تین سال کی عمر کے بچوں میں غصہ عام بات ہے،کیونکہ عمر کے اس حصے میں وہ سماجی اور جذباتی نشوونما کے ابتدائی مرحلے طے کر رہے ہوتے ہیں۔چونکہ یہ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات اور ضروریات کا اظہار نہیں کر پاتے ہیں،لہٰذا جلد مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہی مایوس غصے کا سبب بنتی ہے۔

دراصل ان بچوں کے نزدیک غصہ صرف اپنے بڑوں کو متاثر کرنے اور سیکھنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اگر بچہ بسکٹ کا پیکٹ نہ کھول سکے یا پھر اُسے کہا جائے کہ سونے کا وقت ہو گیا ہے،لیکن وہ ابھی کھیلنا چاہتا ہے،تو ردِ عمل میں غصے کا اظہار کیا جائے گا۔اکثر بچوں میں غصے کے امکانات اُس وقت بڑھ جاتے ہیں،جب وہ تھک گئے ہوں،خوف زدہ یا پھر بے چین ہوں۔

اگر ٹینٹرم کی علامات کا ذکر کریں،تو عام طور پر بچے روتے،چیختے چلاتے ہیں۔فرش پر لاتیں،دیواروں،دروازوں پر مکے مارتے ہیں۔حتیٰ کہ والدین کو بھی مارتے ہیں اور ان پر چیختے چلاتے ہیں۔یہ علامات تب تک برقرار رہتی ہیں،جب ان کی بات مان لی جائے یا وہ چیز جو چاہتے ہیں،دے دی جائے۔یہ صورتِ حال والدین کے لئے خاصی پریشانی کا باعث بنتی ہے۔
ایسا ہر گز نہیں کہ بچے غصیلا رویہ جان بوجھ کے اختیار کرتے ہیں،بلکہ وہ اپنی اس کیفیت کو کنٹرول نہیں کر پاتے،جیسے بڑے کر لیتے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات نے بچے کو ٹینٹرم سے محفوظ رکھنے کے لئے کئی آسان طریقے بتائیں ہیں۔مثلاً:
والدین کو سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ وہ کون سا عمل ہے،جو بچے کو غصے پر اُکساتا ہے۔یہ عمل طبی اصطلاح Function Of Assessment کہلاتا ہے۔
اس تشخیصی عمل کے دوران یہ جانچا جاتا ہے کہ حقیقی زندگی کے حالات کس قسم کی پریشانی پیدا کرتے ہیں،بچے میں ٹینٹرم سے قبل،دوران اور بعد میں کس طرح کی علامات ظاہر ہوتی ہیں،تاکہ جب بچہ دوبارہ ٹینٹرم کا شکار ہو تو اس صورتِ حال پر فوری طور پر قابو پا لیا جائے۔
رونا بچے کی صحت کے لئے ہر گز نقصان دہ نہیں،لیکن اگر وہ ٹینٹرم موڈ کا شکار ہو جائے،تو اسے چپ کروانے کے لئے ڈانٹنا یا غصہ کرنا مزید اشتعال کا باعث بنتا ہے،لہٰذا ڈانٹنے،مارنے یا غصہ کرنے سے اجتناب برتیں۔
دراصل یہ عمل بچے کو اے ڈی ایچ ڈی،سوشل انزائٹی یا لرننگ ڈس آرڈر کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
بعض اوقات بچے اپنی آواز سے متعارف ہونے کے لئے بھی چیختے چلاتے ہیں،لہٰذا انہیں روکنے کے بجائے ان کا ساتھ دیں۔آپ بھی یہی حرکت دہرائیں۔یہ عمل جادوئی اثر کرے گا اور بچہ آپ کے ساتھ کھیلنا شروع کر دے گا۔
بچے جلد ہائپر ہو جاتے ہیں۔نیز،خاصے جوشیلے بھی ہوتے ہیں اور اپنے بڑوں سے بھی یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ بھی ان کے برابر درجے کا جوش و خروش ظاہر کریں۔
مثال کے طور پر اگر بچہ والدین یا کسی اور فرد کوئی کھلونا دکھا رہا ہے،تو متعلقہ فرد کو چاہیے کہ وہ فرطِ مسرت سے کھلونے کی تعریف کریں،بچے کو پُرجوش انداز سے کھلونے کا رنگ،خصوصیات اور استعمال کا طریقہ بتائیں۔
بچے کی ضد پوری کریں،نہ کوئی ایسا وعدہ کریں،جو والدین پورا نہ کر سکیں۔اگر والدین نے بچے کو کوئی چیز دینے سے منع کر دیا ہے اور کچھ دیر بعد وہ چیز دینا لازمی ہو جائے،تو خود دینے کے بجائے کسی اور سے کہیں کہ بچے کو دے دے،تاکہ بچہ یہ نہ سیکھے کہ رونے سے والدین بات مان جاتے ہیں۔

بچے جوں جوں شعور سنبھالتے ہیں،اپنے ماحول سے نت نئی باتیں،چیزیں سیکھتے ہیں،لہٰذا آموزش کے عمل میں ان کی مدد کریں اور جب وہ کوئی نئی بات سیکھیں تو تعریف ضرور کریں۔
بچے کے مزاج اور رویے کو سمجھیں۔اگر بچے کے سونے یا کھانے کا وقت ہو تو کوئی دوسرا کام نہ کریں،بلکہ بچے کی جو ضرورت ہو کھانے پینے،سونے یا کھیلنے کی،وہ پوری کریں۔

ٹینٹرم ختم کرنے کے لئے بچے کو کبھی بھی انعام کا لالچ نہ دیں،کیونکہ یہ عمل ثابت کر دے گا کہ”غصہ“ کارگر ہتھیار ہے۔
بچہ غصے کی حالت میں ہو تو اس کی توجہ کسی دوسری جانب مبذول کروا دیں۔مثال کے طور پر بچے جس چیز کے لئے رو رہا ہے،وہ اس کے لئے موزوں نہیں،تو کوئی دوسری چیز دے دیں یا اس کا ماحول تبدیل کر دیں۔
یہ بات یاد رکھیں کہ چھوٹے بچوں کا غصہ (ٹینٹرم) قطعاً تشویش کا باعث نہیں۔
عام طور پر جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی ہے،وہ خود پر قابو پانا اور والدین اور دیگر افراد سے تعاون کرنا سیکھ جاتا ہے اور اسے مایوسی کا مقابلہ کرنا آ جاتا ہے۔نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ”بچہ کوئی مشق نہیں،جسے والدین جلدی جلدی نمٹا دیں۔نہ ہی وہ ایک پراجیکٹ ہے،جسے بہترین انداز میں مکمل کیا جا سکے،بلکہ وہ ایک انسان ہے،جو اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔“اس بات کو سمجھیں اور صرف سمجھیں نہیں،بلکہ عمل بھی کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں