روشنی کا دیا

تحریر : سعیدہ نصیر

ایک چھوٹے سے گاؤں میں زندگی روایتی اصولوں کے گرد گھومتی تھی، جہاں عورتوں کا مقام ان کے گھروں تک محدود تھا۔ اس گاؤں میں صائمہ نام کی ایک لڑکی رہتی تھی، جو اپنے خوابوں کے لیے بے حد پرعزم تھی۔ صائمہ جانتی تھی کہ علم کی روشنی نہ صرف زندگی کے اندھیروں کو مٹاتی ہے بلکہ انسان کو اپنی حقیقت سمجھنے کا شعور بھی دیتی ہے۔ مگر گاؤں کی روایتوں نے ہمیشہ عورتوں کو تعلیم سے دور رکھا تھا، اور یہی چیز صائمہ کے دل کو بے چین رکھتی تھی۔

صائمہ کے والد حاجی صاحب گاؤں کے معزز اور قدامت پسند انسان تھے۔ وہ ہمیشہ یہی مانتے تھے کہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے اور اسے تعلیم کی ضرورت نہیں۔ صائمہ کے لیے اپنے والد کو قائل کرنا آسان نہ تھا، لیکن اس نے ہار ماننے کا ارادہ نہیں کیا۔ ایک دن جب وہ اپنی والدہ کے ساتھ بیٹھی تھی، اس نے دل کی بات کہی:
“امی، مجھے اسکول جانا ہے۔ میں پڑھنا چاہتی ہوں تاکہ میں اپنی اور دوسری عورتوں کی زندگی بہتر بنا سکوں۔”

والدہ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا، “بیٹی، تمہاری خواہش اچھی ہے، مگر تمہارے ابا کو قائل کرنا ناممکن ہے۔” صائمہ نے ماں کی بات سنی، لیکن اس کے عزم میں کوئی کمی نہ آئی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی مدد خود کرے گی۔

صائمہ نے اپنی قریبی دوست ندا سے مدد مانگی، جو شہر کے ایک اسکول میں پڑھتی تھی۔ ندا نے اپنی پرانی کتابیں صائمہ کو دے دیں۔ راتوں کو جب سب سو جاتے، صائمہ چراغ کی روشنی میں پڑھنا شروع کرتی۔ اس کے والد کو اس بات کا علم نہ تھا، لیکن اس کی ماں خاموشی سے اپنی بیٹی کا ساتھ دے رہی تھی۔

کچھ مہینے گزرے تھے کہ گاؤں میں ایک سماجی کارکن، مہرین بی بی، آئیں۔ وہ خواتین کی تعلیم کے لیے گاؤں میں ایک تعلیمی مرکز قائم کرنا چاہتی تھیں۔ مہرین بی بی نے گاؤں کے لوگوں سے بات کی، لیکن زیادہ تر نے ان کی مخالفت کی۔ کسی نے کہا کہ عورت کو تعلیم کی ضرورت نہیں، تو کسی نے کہا کہ یہ گاؤں کی روایتوں کے خلاف ہے۔

صائمہ کو یہ سن کر بہت دکھ ہوا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ وہ مہرین بی بی سے ملی اور ان کے منصوبے میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ مہرین بی بی نے صائمہ کی بات سنی اور اسے حوصلہ دیا کہ وہ گاؤں کی عورتوں کو قائل کرے۔

صائمہ نے گاؤں کی عورتوں سے بات کرنا شروع کی۔ وہ ان کے گھروں میں گئی اور انہیں تعلیم کے فوائد بتائے۔ اس نے کہا، “تعلیم ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر سکیں، اپنے مسائل خود حل کر سکیں اور اپنی زندگی بہتر بنا سکیں۔” کچھ عورتوں نے اس کی بات پر یقین کیا اور اسے سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایک دن صائمہ نے گاؤں کی پنچایت میں جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے والد کے سامنے کھڑی ہوئی اور کہا، “ابا جان، آپ ہمیشہ کہتے ہیں کہ دین نے علم کو فرض قرار دیا ہے۔ اگر علم مرد کے لیے ضروری ہے تو عورت کے لیے کیوں نہیں؟ عورت بھی انسان ہے اور اسے بھی اپنے حقوق کو سمجھنے کا حق ہے۔”

حاجی صاحب نے اپنی بیٹی کی باتیں سن کر غصے میں کہا، “یہ سب فضول باتیں ہیں۔ عورت کا کام گھر سنبھالنا ہے، کتابیں پڑھنا نہیں۔” صائمہ نے اپنی بات پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کہا، “ابا، اگر آپ ہمیں موقع دیں گے تو ہم آپ کو ثابت کر کے دکھائیں گے کہ تعلیم ہماری زندگی کو کتنا بہتر بناتی ہے۔”

کئی دنوں کی بحث اور مہرین بی بی کی حمایت کے بعد، حاجی صاحب نے گاؤں کی خواتین کے لیے ایک تعلیمی مرکز کھولنے کی اجازت دے دی۔ یہ صائمہ کی پہلی کامیابی تھی۔ تعلیمی مرکز کھلا، اور صائمہ نے خود کو رضاکار کے طور پر پیش کیا کہ وہ گاؤں کی عورتوں اور بچیوں کو پڑھائے گی۔

مرکز میں خواتین نے آنا شروع کیا۔ کچھ پہلے ہچکچاہٹ کا شکار تھیں، مگر صائمہ نے انہیں حوصلہ دیا۔ وہ انہیں نہ صرف پڑھاتی بلکہ ان کے اندر خود اعتمادی بھی پیدا کرتی۔ آہستہ آہستہ خواتین نے محسوس کیا کہ تعلیم ان کے لیے کتنا ضروری ہے۔

کچھ سال گزرے، اور گاؤں کی فضا بدل گئی۔ وہ عورتیں جو کبھی گھر سے باہر قدم رکھنے سے ڈرتی تھیں، اب خود مختار ہو چکی تھیں۔ کچھ نے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا شروع کیا، کچھ نے دستکاری سیکھی، اور کچھ نے زمینداری کے کاموں میں نئی تکنیک اپنائیں۔ گاؤں کی بچیاں اب تعلیم کے میدان میں نمایاں تھیں، اور یہ سب صائمہ کی محنت کا نتیجہ تھا۔

ایک دن حاجی صاحب نے صائمہ کو بلایا۔ ان کے چہرے پر فخر کے آثار تھے۔ انہوں نے کہا، “بیٹی، میں نے ہمیشہ سوچا تھا کہ عورت کا مقام اس کا گھر ہے، لیکن تم نے ثابت کر دیا کہ علم عورت کو مضبوط بناتا ہے۔ تم نے نہ صرف اپنی بلکہ پورے گاؤں کی زندگی بدل دی ہے۔”

صائمہ کی جدوجہد نے ثابت کر دیا کہ عورت اگر ہمت اور حوصلے سے کام لے، تو نہ صرف اپنی زندگی بدل سکتی ہے بلکہ پورے معاشرے کو روشن کر سکتی ہے۔ اس کا خواب پورا ہو گیا تھا۔ وہ دیا، جو صائمہ نے جلایا تھا، اب پورے گاؤں کے لیے روشنی بن چکا تھا۔ یہ کہانی ایک سبق دیتی ہے کہ علم ہر انسان کا حق ہے، چاہے وہ کسی بھی جنس یا علاقے سے تعلق رکھتا ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں