شعرو ادب

اس کیٹا گری میں 20 خبریں موجود ہیں

قافیہ اور ردیف

دِلچَسپ بات یہ کہ موٹر سائیکل پر دو سوار بیٹھے ہوں تو اِسے عوامی زبان میں ڈَبَل سواری کہا جاتا ہے ۔ انگریزی میں اِسے pillion riding کہتے ہیں ۔ لیکِن فارسی میں گھوڑے پر بیٹھنے والے دو سواروں میں…

لوح و قلم کا معجزہ

سید سبط حسن “اگر تم میری ہدایتوں پرعمل کروگے توصاحب ہنرمحرر بن جاؤگے۔ وہ اہل قلم جو دیوتاؤں کے بعد پیدا ہوئے آئندہ کی باتیں بتا دیتے تھے۔ گو وہ اب موجود نہیں ہیں لیکن ان کے نام آج بھی…

جدا ہوئے وہ لوگ کہ جن کو ساتھ میں آنا تھا

کلام :شہریار جدا ہوئے وہ لوگ کہ جن کو ساتھ میں آنا تھا اک ایسا موڑ بھی ہماری رات میں آنا تھا تجھ سے بچھڑ جانے کا غم کچھ خاص نہیں ہم کو ایک نہ اک دن کھوٹ ہماری ذات…

یونیورسٹی کے لڑکے( مزاح)

احمد جمال پاشا صاحب لڑکوں کی تو آج کل بھرمار ہے۔ جدھر دیکھیے لڑکے ہی لڑکے نظر آتے ہیں۔ گویا خدا کی قدرت کا جلوہ یہی لڑکے ہیں۔ گھراندر لڑکے، گھر باہر لڑکے، پاس پڑوس میں لڑکے، محلہ محلہ لڑکے،…

ہم نوا گر، خوش رہے جیسے بھی حالوں میں رہے

احمد فراز: تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے ہم نوا گر، خوش رہے جیسے بھی حالوں میں رہے دیکھنا اے رہ نوردِ شوق! کوئے یار تک کچھ نہ کچھ رنگِ حنا پاؤں کے چھالوں میں رہے ہم سے…

فوٹوگرافر

قرۃالعین حیدر: موسم بہار کے پھولوں سے گھرا بے حد نظر فریب گیسٹ ہاؤس ہرے بھرے ٹیلے کی چوٹی پر دور سے نظر آجاتا ہے۔ ٹیلے کے عین نیچے پہاڑی جھیل ہے۔ ایک بل کھاتی سڑک جھیل کے کنارے کنارے…

محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے

کلام :ساحر لدھیانوی محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے زمانے اب تو خوش ہو زہر یہ بھی پی لیا میں نے ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں کہ اب تک کس تمنا کے…

فینسی ہیرکٹنگ سیلون( افسانہ)

غلام عباس: آبادیوں کی ادل بدل نے ایک دن ایک اجنبی شہر میں چارحجاموں کو اکھٹا کردیا۔ وہ ایک چھوٹی سی دکان پر چائے پینے آئے۔ جیسا کہ قاعدہ ہے ہم پیشہ لوگ جلد ہی ایک دوسرےکو پہچان لیتے ہیں۔…

پتھر کی سرگذشت( روسی ادیب فیودور سلوگب کے قلم سے)

شہر میں پتھر کی ایک سڑک تھی۔گزرتی ہوئی گاڑی کے پہیے نے ایک پتھر کو دوسرے پتھروں سے جدا کردیا۔ اس پتھر نے دل میں سوچا۔’’ مجھے اپنے ہم جنسوں کے ساتھ موجودہ حالات میں نہیں رہنا چاہئے۔ بہتر یہی…

غزل( منتخب کلام)

کلام :پروین شاکر بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا کس شباہت کو لیے…