اے گلستان اندلس، وہ دن ہیں یاد تجھ کو(سفرنامہ سپین)

حسنین نازشؔ:
قسط .3

ہمارا جہاز بارسلونا کے ہوائی اڈے پر لینڈ کر چکا تھا۔ یہاں سے پونے چھ سو میل کے فاصلے پرایک سرسبز و شاداب پہاڑی کے ساحل پر برطانیہ کا سب سے طاقتور بحری اڈا ہے۔یہ اڈہ برطانوی دفاع کے لیے اتنا اہم ہے کہ اسے دی راک یعنی چٹان کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ پہاڑی اور اس کے ارد گرد کا زمینی علاقہ ایک چھوٹی سی زمینی پٹی کے ذریعے سپین سے جڑا ہوا ہے یہاں برطانوی فوجی تعینات ہیں لیکن یہاں 33 ہزار کے قریب مقامی آبادی بھی رہتی ہے جو کہ برطانوی شہری ہیں۔ اس جگہ مسلم دور حکومت کے دوران تعمیر کیے گئے ایک قلعے کی باقیات بھی موجود ہیں۔

یہاں ایک جدید طرز کی بنی مسجد بھی ہے جو سعودی شاہی حکمران شاہ فہد نے بنوائی تھی۔ یہ پہاڑی اور اس کے ارد گرد کا چھوٹا سا قطعہ زمین اسپین نے 1713 ء میں ایک معاہدے کے تحت برطانیہ کے حوالے کیا۔آج اسی بحری اڈے سے برٹش نیوی بحیرہ روم اور بحر اوقیاوس کے درمیانی راستے آبنائے جبرالٹر پر نظر رکھتی ہے اور ضرورت پڑنے پر برطانوی نیوی اس جبرالٹرسٹیٹس کو ان سمندری راستوں کو بند بھی کر سکتی ہے۔ سٹریٹیجکٹ نقطے کے علاوہ اس پہاڑی کی ایک تاریخی اہمیت بھی ہے 1300 سال پہلے مئی 711 ء میں اسی پہاڑی کے قریب مشہور زمانہ مسلم جرنیل طارق بن زیاد نے سات سے دس ہزار سپاہیوں کے ساتھ لینڈ کیا تھا۔ اسی لیے یہ پہاڑی طارق بن زیاد کے نام پر جبل طارق یعنی طارق کی پہاڑی کہلائی اور بعد میں یہ نام یورپین زبانوں میں بگڑتا بگڑتا جبرالٹرہو گیا آج بھی اس پہاڑی اور اس کے ارد گرد کے برٹش علاقے کو جبرالٹرکہتے ہیں۔

711 میں جب طارق بن زیاد اپنے مختصر لشکر کے ساتھ یہاں فتح کی امید لے کرآیا ستو اس وقت سپین کے جنوب میں بحیرہ روم کے پار شمالی افریقہ کا علاقہ مسلمانوں کی اموی سلطنت کے کنٹرول میں تھا۔موسیٰ بن نصیر یہاں کے حاکم تھے۔ اس وقت بربر شمالی افریقی قبائل کے لوگوں کو کہا جاتا تھا طارق بن زیاد نو مسلم تھے اور ان کا تعلق الجزائر یا الجیریا کے علاقے سے تھا وہ موسیٰ بن نصیر کے بہت ہی جانثار اور قابل بھروسہ ساتھی تھے پھر جب موسیٰ بن نصیر نے سپین پر حملے کا فیصلہ کیا تو فوج کی کمان کے لیے انہوں نے اپنے اسی جانثار ساتھی اور سابق غلام طارق بن زیاد کو منتخب کیا۔ انہوں نے طارق بن زیاد کے ذمے یہ کام لگایا تھا کہ وہ سپین جائیں اور اس کے جغرافیے کا وہاں کے محلے وقوع کا وہاں کے لوگوں کا اندازہ لگائیں۔ وہاں سے ممکنہ اتحادی اکھٹے کریں ِ اور وہاں سے جو جاسوسی کے عمل کو شروع کریں۔ باقاعدہ حملہ ابھی بعد میں ہونا تھا تو موسیٰ بن نصیر کا حکم ملا تو طارق بن زیاد نے 7 ہزار سپاہی جمع کیے اور اس فوج کو بحری جہازوں میں بٹھا کر جبرالٹر کی طرف روانہ ہو گئے۔
ان کی فوج میں زیادہ تر سپاہی بربرتھے جبکہ کچھ شامی اور یمنی سپاہی بھی ان کی فوج کا حصہ تھے۔ حملہ کرنے کے لیے سپین کے نیچے جبرالڈر کا انتخاب غالبا اسی وجہ سے کیا گیا تھا کیونکہ سپین میں داخل ہونے کا یہی محفوظ ترین راستہ تھا۔ سپین کے محافظوں کو توقع ہی نہیں تھی کہ اس چھوٹی سی جگہ سے بھی کوئی بڑا لشکر سپین میں داخل ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی یہ لشکر یہاں سے جو داخل ہو رہا تھا وہ حملے کے لیے نہیں داخل ہوا تھا وہ تو جاسوسی وغیرہ جیسے مقاصد کے لیے داخل ہو رہا تھا یہی وجہ تھی کہ سپین کے لوگوں نے اس راستے کی نگرانی کے لیے کوئی بڑی فوج وہاں نہیں رکھی ہوئی تھی نہ ہی ساحل پر کوئی حفاظتی قلعے تعمیر کیے گئے تھے اگر کوئی تھے بھی تو اس وقت بہرحال خالی پڑے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ طارق بن زیاد کا لشکر آسانی سے جبرالٹر کے ساحل پر اتر گیا اور اسے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ایک غیر مصدقہ قصہ مشہور ہے کہ جبرالٹر کے ساحل پر کامیابی سے اترنے کے بعد طارق بن زیاد نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی کشتیاں اور جہاز جلا دیں تاکہ واپسی کا راستہ بند ہو جائے۔ غیر مصدقہ اس لیے کہا کہ تاریخ کی ابتدائی کتابوں میں جہاں مسلمانوں کی فتوحات کا ذکر ہے ان کتابوں میں اس کشتیاں جلانے کے واقعے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ یہ واقعہ بہت بعد میں کہیں تاریخ میں شامل کیا گیا ہے

بہرحال اس موقع پر طارق بن زیاد نے اپنی فوج سے ایک پرجوش خطاب کیا:
انہوں نے کہا:
َ ”میرے عزیز بھائیو!میرے ساتھیو! ہم یہاں للہ کا پیغام پھیلانے کے لیے آئے ہیں اب دشمن آپ کے سامنے ہیں اور سمندر آپ کے پیچھے آپ نے اللہ کے مشن کے لیے لڑنا ہے اور اب آپ یا تو جیتیں گے فتح پائیں گے یا پھر شہید ہو جائیں گے۔ تیسرا کوئی راستہ نہیں بچا یہاں تک کہ واپسی بھی ممکن نہیں۔‘‘
طارق بن زیاد اور ان کی فوج کی زندگیوں کا انحصار اب صرف اس بات پر تھا کہ وہ ہر قیمت پر فتح حاصل کریں کیونکہ ناکامی کا آپشن تو ختم ہو چکا تھا۔
سوال یہ ہے کہ آخر مسلمان سپین میں داخل ہی کیوں ہوئے تھے؟
دیکھیے کہ طارق بن زیاد کو یہاں لڑنا کس سے تھا تو اس کا جواب یہ ہے جب طارق بن زیاد سپین پر حملہ اور ہو رہے تھے تو اس وقت اس خطے میں سپین نام کا کوئی ملک نہیں تھا۔

پورا علاقہ یا جزیرہ نما آئی بیریا کہلاتا تھا یعنی آئبیرین پیننسولہ۔ مسلمانوں کی اس خطے میں آمد سے کئی سو برس پہلے یہاں اہل روم کی بھی حکومت رہ چکی تھی۔ اہل روم اس خطے کو ہسپانیہ کہتے تھے اور مسلمان اسے اندلس کا نام دیتے تھے کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے یہ نام اس وجہ سے اسے دیا تھا کیونکہ یہاں کے قدیم باشندے لنڈلز یا اینگلز کہلاتے تھے اور اسی طرح یہ نام عربی میں اندلس پڑ گیا مسلمانوں کی یہاں آمد کے وقت آئی بیریا میں کوئی ایک قوم آباد نہیں تھی بلکہ یورپ کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے خانہ بدوش قبائل نے یہاں ڈیرے ڈال رکھے تھے۔
قبائل میں ایک قبیلہ ویسی گو تھا۔اس قبیلے کے لوگ عیسائیت کیتھولک کا مذہب اختیار کر چکے تھے اور انہوں نے 418 میں آءئبیریا کے قدیم باشندوں ونڈوز یا ہینڈلز کو شکست دے دی تھی اس کے بعد اس قبیلے نے آئی بیریا میں ایک طاقتور سلطنت کی بنیاد رکھی جس نے اپنی عروج کے دور میں موجودہ سپین اور پرتگال کے زیادہ تر علاقوں پر یعنی اس کے بعد اس قبیلے نے آئیبیریا میں اپنی طاقتور سلطنت کی بنیاد رکھی اور ان کی سلطنت میں ان کے عروج کے دور میں سپین اور پرتگال کے علاوہ فرانس کا بھی کچھ علاقہ ان کے قبضے میں تھا یہ سلطنت مسلمانوں کی اندلس میں آمد کے وقت کوئی 300 سال سے قائم تھی بظاہر یہ سلطنت بڑی مضبوط تھی مگر وہ کہتے ہیں کہ ہر عروج کو ایک زوال ہے تو ویسے ہی گوتھک سلطنت کے ستارے بھی گردش میں آ چکے تھے۔طارق بن زیاد کے حملے سے صرف ایک برس پہلے اس سلطنت میں ایک ایسا حکمران ا ٓچکا تھا جس نے سلطنت کو کمزور کرکے اس کے اتحاد کوپارہ پارہ کر دیا تھا۔ آپس میں نا اتفاقی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ سلطنت میں خانہ جنگی شروع ہو چکی تھی۔ اس وقت کے حکمران کا نام تھا کنگ راڈرک۔

وہ گوتھک سلطنت کے شاہی خاندان کا رکن نہیں تھا اس کے خاندانی تاریخی پس منظر کے بارے میں تاریخ کچھ نہیں جانتی۔ایسا بس سمجھا جاتا ہے کہ وہ شاید گوتھک سلطنت میں کسی صوبے کا گورنر تھا۔ جب 710 ء میں گوتھک بادشاہ میٹنز کی موت ہو گئی تو راڈرک نے کچھ درباریوں کی سازباز سے بغاوت کر کے آنجہانی بادشاہ کے بیٹوں سے اقتدار چھین لیا۔ یوں بظاہر وہ حکمران تو بن گیا لیکن اس کی حکومت پہلے دن سے ہی متنازع تھی کیونکہ وہ شاہی خاندان کیافرد نہیں تھا۔ اس لیے سلطنت کے زیادہ تر علاقوں میں اسے قانونی حکمران تسلیم بھی نہیں کیا گیا۔ اس وقت کے قاعدہ کے مطابق یہ درست بھی تھا کہ جو بلڈ لائن سے نہیں ہے اس کی حکمرانی چیلنج ہوتی تھی۔ اس کی حق حکمرانی پر سوال اٹھتے تھے۔ سو ایک طرف آنجہانی بادشاہ کے بیٹوں نے راڈرک کے خلاف بغاوت کر دی تو دوسری طرف شاہی دربار کے لوگ بھی اس کے خلاف ہو گئے۔ پھر مختلف علاقوں کے گورنروں میں سے جو لوگ راڈرک کے حامی نہیں تھے انہوں نے بھی پرراڈرک کی حکومت ختم کرنے کے لیے سازشیں شروع کر دیں۔ ایسے ہی سازشیوں میں ایک سازشی کا نام تھا کاؤنٹ جولین۔ یہ افریقی علاقے سبتہ کا گورنر تھا جو کہ مراکش کی سرحد پر سمندر کنارے واقع ہے یعنی مراکش کے ساتھ آج بھی یہ علاقہ سپین کی ایک خود مختار کالونی ہے۔
طارق بن زیاد کے دور میں بھی یہ علاقہ سپین کے کنٹرول میں تھا اور اس کا حکمران کاؤنٹ جولین تھا۔ اس نے راڈرک کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے مسلمانوں سے ہاتھ ملا لیا۔ اس کی وجہ کے طور پر ایک دلچسپ کہانی بیان کی جاتی ہے جو سچ بھی ہو سکتی ہے اور اس کے برعکس بھی۔ کہتے ہیں کہ کاؤنٹ جولین کی ایک بیٹی ناکاوا تھی جوغیر معمولی طور پر حسین وجمیل تھی۔ کاؤنٹ جولین نے اسے دستور کے تحت تعلیم و تربیت اور شاہی طور طریقے سکھانے کے لیے راڈرک کے محل میں سمندر پارتولیدول بھیجا۔ ناکاوا شاہی محل پہنچی توراڈرک اس کے حسن کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اور پہلی ہی نظر میں شہزادی کو دل دے بیٹھا۔
وہ بھی جلد ہی بادشاہ کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔ جب ان دونوں کی محبت کے فسانے لوگوں نے پھیلائے تو یہ باتیں کاؤنٹ جولین تک جا پہنچیں تو اسے سخت صدمہ پہنچا۔ تاریخ میں کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ راڈرک نے اس شہزادی کی عزت لوٹی تھی۔ شہزادی نے تمام قصہ اپنے والد کو سنایا تو کاؤنٹ جولین راڈرک سے نفرت کرنے لگا۔اس نے اس سے اس فعل قبیح کا بدلہ لینے کا اٹل فیصلہ کر لیا۔
جولین نے موسی بن نصیر کو قائل کرلیا کہ اسپین کے لوگ بادشاہ اور پادریوں کے گرفت میں اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ملک کے تمام وسائل اور زمینوں پر پادریوں اور بادشاہ کا قبضہ ہے۔ انہوں نے اپنے بنائے ہوئے قانون کے تحت عام انسانوں کا جینا محال کردیا ہے۔ عام رعایا اب کسی غیبی مسیحا کی تلاش میں ہے اور ایسے میں اگر آپ ہمارے مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو راجگان سمیت ہسپانیہ کے عوام آپ کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔
موسٰی بن نصیر نے جولین کی پیشکش پر غور کیا اور اپنی فوج کے طریف ابن ملوک نامی سپہ سالار کو 300 فوجیوں کے ہمراہ اسپین کی صورتحال کا جائزہ لینے اور حقائق معلوم کرنے کے لیے روانہ کیا۔ طریف اسپین کے جنوبی ساحل پر لنگرانداز ہوا۔ جس مقام پر طریف نے اپنے لشکر کے ساتھ اسپین کی سرزمین پرقدم رکھا، وہ مقام آج بھی
طارق بن زیاد کے دور میں بھی یہ علاقہ سپین کے کنٹرول میں تھا اور اس کا حکمران کاؤنٹ جولین تھا۔ اس نے راڈرک کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے مسلمانوں سے ہاتھ ملا لیا۔ اس کی وجہ کے طور پر ایک دلچسپ کہانی بیان کی جاتی ہے جو سچ بھی ہو سکتی ہے اور اس کے برعکس بھی۔ کہتے ہیں کہ کاؤنٹ جولین کی ایک بیٹی ناکاوا تھی جوغیر معمولی طور پر حسین وجمیل تھی۔ کاؤنٹ جولین نے اسے دستور کے تحت تعلیم و تربیت اور شاہی طور طریقے سکھانے کے لیے راڈرک کے محل میں سمندر پارتولیدول بھیجا۔ ناکاوا شاہی محل پہنچی توراڈرک اس کے حسن کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اور پہلی ہی نظر میں شہزادی کو دل دے بیٹھا۔
وہ بھی جلد ہی بادشاہ کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔ جب ان دونوں کی محبت کے فسانے لوگوں نے پھیلائے تو یہ باتیں کاؤنٹ جولین تک جا پہنچیں تو اسے سخت صدمہ پہنچا۔ تاریخ میں کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ راڈرک نے اس شہزادی کی عزت لوٹی تھی۔ شہزادی نے تمام قصہ اپنے والد کو سنایا تو کاؤنٹ جولین راڈرک سے نفرت کرنے لگا۔اس نے اس سے اس فعل قبیح کا بدلہ لینے کا اٹل فیصلہ کر لیا۔
جولین نے موسی بن نصیر کو قائل کرلیا کہ اسپین کے لوگ بادشاہ اور پادریوں کے گرفت میں اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ملک کے تمام وسائل اور زمینوں پر پادریوں اور بادشاہ کا قبضہ ہے۔ انہوں نے اپنے بنائے ہوئے قانون کے تحت عام انسانوں کا جینا محال کردیا ہے۔ عام رعایا اب کسی غیبی مسیحا کی تلاش میں ہے اور ایسے میں اگر آپ ہمارے مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو راجگان سمیت ہسپانیہ کے عوام آپ کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔
موسٰی بن نصیر نے جولین کی پیشکش پر غور کیا اور اپنی فوج کے طریف ابن ملوک نامی سپہ سالار کو 300 فوجیوں کے ہمراہ اسپین کی صورتحال کا جائزہ لینے اور حقائق معلوم کرنے کے لیے روانہ کیا۔ طریف اسپین کے جنوبی ساحل پر لنگرانداز ہوا۔ جس مقام پر طریف نے اپنے لشکر کے ساتھ اسپین کی سرزمین پرقدم رکھا، وہ مقام آج بھی Tarif کے نام سے جانا جاتا ہے۔

طریف نے واپس آکر موسیٰ بن نصیر کو حقائق سے آگاہ کیا۔ یورپ کی طرف سے ہمیشہ افریقہ کو زیر کرنے کے لیے حملے کیے جاتے رہے لیکن اب شمالی افریقہ کی باری تھی۔ موسیٰ بن نصیر نے اسپین پر حملے کے لیے اپنے سب سے قابل اعتماد جنرل طارق بن زیاد کا انتخاب کی
کیا معلوم کہ ناکاوا راڈرک کی محبت میں گرفتار ہوئی یا اس کی عزت کو راڈرک نے پامال کیا یا پھر اس نے چال چلتے ہوئے راڈرک کو محبت کے جال میں پھنساکر ایسے محرکات پیدا کیے جس کے سبب کاؤنٹ جولین نے راڈرک کے خلاف مسلمانوں سے مدد طلب کی اور یوں جبرالٹر کے ذریعے اور طارق بن زیادہ کے قدم اندلس کی سرزمین پر پڑے۔ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
طریف نے واپس آکر موسیٰ بن نصیر کو حقائق سے آگاہ کیا۔ یورپ کی طرف سے ہمیشہ افریقہ کو زیر کرنے کے لیے حملے کیے جاتے رہے لیکن اب شمالی افریقہ کی باری تھی۔ موسیٰ بن نصیر نے اسپین پر حملے کے لیے اپنے سب سے قابل اعتماد جنرل طارق بن زیاد کا انتخاب کی
کیا معلوم کہ ناکاوا راڈرک کی محبت میں گرفتار ہوئی یا اس کی عزت کو راڈرک نے پامال کیا یا پھر اس نے چال چلتے ہوئے راڈرک کو محبت کے جال میں پھنساکر ایسے محرکات پیدا کیے جس کے سبب کاؤنٹ جولین نے راڈرک کے خلاف مسلمانوں سے مدد طلب کی اور یوں جبرالٹر کے ذریعے اور طارق بن زیادہ کے قدم اندلس کی سرزمین پر پڑے۔

ادھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ میں آج کیوں اندلس کی سرزمین میں قدم رکھنا چاہ رہا ہوں؟ جواب یہ ہے کہ ہسپانیہ کی خاک چھاننے کی تڑپ مجھے کئی سالوں سے مجبور کر رہی تھی کہ یورپ کے اس خوبصورت ملک اور مسلمانوں کی تقریباً 800 سالہ عظیم سلطنت کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔ چونکہ اندلس کی تاریخ، دوسرے اکثر مسلم ممالک کے مقابلہ میں، غالباً سب سے زیادہ پُر مغزواقعات سے پر ہے۔ اندلس میں ہر قسم کے واقعہ کی مثال موجود ہے۔یہاں مسلمانوں کی فتح اور شکست کی مثالیں بھی موجود ہیں تو ان کی ترقی کی بھی اور تنزلی کی بھی۔ مادیات نشانیاں ہیں تو روحانیات کی بھی۔ علمی اور فکری بھی اور عملی اور انقلابی بھی۔ سب سے بڑھ کرحکیم الامت علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مجھ ایسے حساس طبیعت نوجوان لڑکے کو اواہل جوانی ہی میں حب اندلس کے حصار میں۔جکڑ لیا تھا۔۔ اواہل جوانی ہی سے پڑھتے سنتے اور گاتے آئے ہیں:
مغرب کی وادیوں میں گونجی آذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا
اے گلستانِ اندلس، وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں میں جب آشیاں ہمارا

موسی بن نصیر نے اس مقصد کے لیے طارق بن زیاد کو کمانڈر بنا کر بھیجا تھا یعنی طارق بن زیاد کا مقابلہ ویسے تو سلطنت کے حکمران کنگ راڈرک سے تھا جس کے عوا م،رعایا اور درباری اس کے خلاف ہو چکے تھے اس لیے ان میں سے بہت سے مقامی لوگوں نے طارق بن زیاد کی اندلس آمد پر اس کی خفیہ طور پر مدد بھی کی ہوگی۔ایسا ممکن ہے کہ طارق بن زیاد جن بحری جہازوں میں جبرالٹر گئے تھے وہ بھی کنگ راڈرک کے مخالف کاؤنٹ جولین ہی نے فراہم کیے ہوں۔
میرے اندلس کے ممکنہ میزبانوں میں ویلنشیا کے ایک پاکستانی تاجر محمد فاروق ہو سکتے تھے جن سے میں 2020میں ایک ہوائی سفر کے دوران ملا تھا۔ انہوں نے فراخ دلی سے مجھے سپین آمد کی نہ صرف دعوت دی تھی بلکہ سیروسیاحت کے جملہ اخراجات اٹھانے کی بھی ہامی بھری تھی۔ میں نے پاکستان اور بعد ازاں قیام پیرس کے دوران ان سے رابطہ کیا تھا اور ا نہیں ان کا وعدہ یاد دلایا تھا۔ وہ اپنے وعدے پر قائم تھے۔ ہسپانیہ میں میرا دوسرا ممکنہ میزبان فیصل رحمان تھا جو اس وقت برطانیہ میں مقیم تھا۔ جب بھی اسے معلوم ہوتا ہے کہ میں سیاحت کی غرض سے یورپ کے کسی حصے کی جانب عازم سفر ہوں تو وہ حتی المقدور مجھ سے ملنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس نے میرے سابقہ سفر یورپ کے دوران مجھ سے جرمنی کے شہر میونخ میں نہ صرف ملاقات کی تھی بلکہ میرے اور زاہد زمان قریشی کی میزبانی کرتے ہوئے ہمیں آسٹریا کے قصبوں اور دیہات کی سیر کروائی تھی۔ (اس کا تذکرہ میرے یورپ کے سفرنامے پہلی جھلک یورپ کی، میں درج ہے)۔اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ فیصل نے ہی میرے پیرس سے بارسلونا کے ہوائی ٹکٹ کا بندوبست کیا تھا۔ بارسلونا کے ہوائی اڈے پر وہ میرا منتظر ہوگا۔ بالکل ایسے ہی جیسے کاؤنٹ جولین کے لوگ طارق بن زیاد کے منتظر تھے۔ فیصل رحمان کا ساتھ صرف اور صرف بارسلونا تک محدود ہوگا۔ اس کے بعدمجھے میزبانی کا شرف اپنے کزن عاصم شکور کو دینا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں