ایمل سفیان:
نینا اور ٹینا دونوں چڑیا بہت شرارتی تھیں۔اُن کی امی نےکھانا لاکر گھونسلے کی ہری اور بھوری تہوں میں چھپا دیا۔بعد میں ان دونوں کو پاس بلا کر کھانے کی جگہ دکھائی اورکہا کہ ’’جب تک میں نہ آؤں،اس کو نہ چھیڑ نا۔لیکن اگر رات ہو جائے اور میں واپس نہ آسکوں تو اسی میں سے کھانا نکال کر کھا لینا۔ ‘‘ نینا اور ٹینا نے سراثبات میں ہلایا تو ان کی امی نیلگوں فلک پر اپنے پر پھڑ پھڑاتی دور تک جاتی نظر آئیں۔
امی کے جانے کے بعد نینا اور ٹینا سورج کو دیکھنے لگیں۔ ’’کتنا وقت ہوا ہو گا؟ ‘‘ نینا نے ٹینا سے پوچھا۔
’’ہو سکتا ہےایک گھنٹہ ہو گیا ہو۔ ‘‘ ٹینا نے آنکھیں آگ کے گولے یعنی سورج پر ٹکا کر جواب دیا۔
’’میں سوچ رہی تھی کہ اگر کسی کو پتہ چل گیا کہ امی ہمارے لیے کھاناچھپا کر گئی ہیں اور اُس پر کسی نے حملہ کر دیا تو وہ ہمارا کھانا لے جائے گا۔ ‘‘ نینا نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔
’’ہر گھونسلے میں کھاناچھپایا جاتا ہو گا۔صرف ہماری امی ہی تو ہمارے لیے کھاناچھوڑ کر نہیں گئیں ۔ہو سکتا ہے باقی بھی کسی کو امی چھوڑ جاتی ہوں ۔جب کبھی کسی اور کے گھر حملہ نہیں ہوا تو ہمارے گھر کیوں ہو گا؟اور حملہ کرنے والے کو کیا پتہ کہ کھانا کدھر پڑا ہے؟ ‘‘ ٹینا نے نینا کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
’’لیکن سب گھونسلے تو ایک جیسے ہوتے ہیں،اس لیے کھاناچھپانے کی جگہ بھی سب کے دماغ میں ایک ہی آتی ہو گی۔کیوں نہ ہم کھانےکی جگہ بدل دیں۔اس طرح جو حملہ کرنے آئے گا،اُسے اندازہ ہی نہیں ہو سکے گا کہ ہم نے کھانا کہاں رکھا۔ ‘‘ نینا چونکہ مطمئن ہونے والی ہی نہیں تھی ،اس لیے ایک اور دور کی کوڑی لائی۔اس بات پر ٹینا بھی اس کے ساتھ متفق ہو گئی ۔دونوں بہنیں کھانانکال کر گھونسلے کے درمیان میں لے آئیں۔
’’اتنا سامنے رکھو گی تو حملہ آور کے لیے بہت آسانی ہو جائے گی۔اسے تھوڑا سا کسی ایک کونے میں رکھ دو۔ ‘‘ ٹینا نے نینا کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’لیکن وہ تو پہلے کونوں میں ہی ڈھونڈے گا،سامنے تو اُس کی نظر ہی نہیں جا ئے گی ۔ ‘‘ نینا کی اپنی ہی سائنس تھی۔
وہ دونوں اپنی چونچ میں کھانالے کر اپنی اپنی طرف کھینچنے لگی۔اتنی میں اُن کا دشمن طوطا آیا اور اُن دونوں کی چونچ کے درمیان سے کھانا دبوچ کر ایک ہی اُڑان میں پھُر ہوگیا۔
![](https://dailyaftab.pk/wp-content/uploads/2025/02/2c586bd8-ab3c-4528-b7cd-926c05ce94ae.png)