شیخ چاند بیوپار ی سون پور میں رہتا تھا۔ اس کی ایک دکان تھی۔ دکان کس قسم کی تھی یہ بتانا ذرا مشکل ہے کیونکہ اس ایک دکان میں کئی دکانیں مو جود تھیں۔ گاؤں کے لوگ کہا کر تے تھے کہ شیخ چاند کی دکان میں صرف شیرنی کا دودھ ہی نہیں ملتا، اس کے علاوہ ہر چیز مل جاتی ہے۔ دکان پر ایک پرانا سا بورڈ لگا تھا جو زنگ لگ جانے کی وجہ سے ہر سال قسطوں میں کم ہوتا جاتا تھا۔ کسی زمانے میں اس بورڈ پر’ شیخ چاند اینڈ سنس‘ لکھا ہوا تھا۔ اب صرف چاند پڑھا جا سکتا تھا۔ شیخ چاند تھا بڑا دلچسپ آدمی، بظاہر بیوقوف قسم کا، چہرے سے تو ایسا ہی لگتا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ کچھ معاملات میں بڑا چالاک بھی تھا ورنہ بدّھو پن سے بھلا اس کا کاروبار اتنا کیسے پھیلتا ؟، کبھی تو اس کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے کہ لوگ اس کی حالت دیکھ کر ہنس پڑتے کبھی اس کی اپنی حماقتوں کی وجہ سے وہ لوگوں کی ہنسی کا نشانہ بنتا۔ اتنا بڑا کاروبار ہونے کے باوجود وہ بلا کا کنجوس تھا۔ ہر وقت اس کے سر پر یہ فکر سوار رہتی تھی کہ کس طرح دو پیسے بچائے جائیں۔ گاؤں کے لوگ اس کی بیوقوفیوں کے قصّے مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔ ان میں یہ لطیفہ بھی تھا کہ مرنے بعد شیخ چاند خدا کے حضور میں پہنچا تو اس کے نامہ اعمال میں نیکیاں اور برائیاں دونوں کا پلڑا برابر تھا۔ خدا نے اس سے پوچھا ’’بتاؤ شیخ چاند! اب تمھیں جنّت میں بھیجا جائے یا جہنّم میں ؟‘‘ شیخ چاند نے جواب دیا،’ ’اے خدا، میں کیا بولوں، بس جدھر بھی دو پیسے کا فائدہ ہو اُدھر بھیج دے۔‘ ‘
(محمد اسد اللہ کی کتاب’’ گپ شپ‘‘ سے اقتباس)