علامہ محمد اسد، ایک ہمہ جہت شخصیت

بیسویں صدی میں امت اسلامیہ کے علمی افق کو جن ستاروں نے تابناک کیا ان میں جرمن نو مسلم محمد اسد کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ محمد اسد1900 موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں پیدا ہوئے جو تب آسٹرو ہنگرین سلطنت کا حصہ تھا۔ان کا پیدائشی نام لیو پولڈویز تھا اور ان کا خاندان کئی نسلوں سے یہودی ربی تھا ،لیکن والد وکیل تھے۔۔لیوپولڈ نے ابتدائی عمر ہی میں عبرانی زبان سیکھ لی تھی۔ ان کا بچپن تورات، تفسیرِ تورات، عہد نامہ عتیق اور تلمود سمیت یہودیت کی دیگر کتابیں پڑھتے گزرا۔ان کے والد انہیں ریاضی اور طبیعیات پڑھا کر سائنس دان بنانا چاہتے تھے لیکن انہیںسائنسی مضامین کے بجائے عمرانیات سے دلچسپی تھی۔
بعد میں ان کے اہلخانہ ویانا منتقل ہو گئے جہاں 14 سال کی عمر میں انھوں نے سکول سے بھاگ کر جعلی نام سے آسٹرین فوج میںبھرتی ہونے کی کوشش کی تاکہ پہلی عالمی جنگ میں شریک ہوسکیں مگروالد کی شکایت پر کم عمری کی وجہ سےانہیں واپس بھیج دیا گیا۔ دوسری طرف آسٹرین سلطنت ٹوٹ گئی اور ساتھ ہی ان کا یہ خواب بھی۔ جنگ کے بعد انھوں نے ویانا سے تعلیم حاصل کی۔
سنہ 1920 میں وسطی یورپ میں کئی چھوٹی بڑی نوکریاں کرنے کے بعد برلن میں جرمنی کے روزنامے ’فرینکفرٹرزائیٹنگ‘ میں صحافی بن گئے۔ سنہ 1922 میں وہ بیت المقدس میں اپنے ماموں سے ملاقات کے لیے مشرق وسطیٰ گئے اور مصر سے ہوتے ہوئے فلسطین پہنچے۔
ان کے ماموں ڈوریان نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ کے شاگرد تھے۔ ڈوریان کا گھر ’بابِ جحفہ‘ سے چند قدم کے فاصلے پر واقع ایک قدیم شہر میں تھا، جہاں انھیں پہلی مرتبہ اسلامی طرزِ زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اخبار کے مشرق وسطیٰ کے نمائندے کے طور پر صیہونیت، برطانوی حکمرانی اور مسلم اور عرب قوم پرستی کے بارے میں لکھا۔
مشرق وسطی سے واپسی کے بعد جرمنی میں قیام کے دوران میں حسبِ ذیل واقعہ کے مشرف باسلام ہو گئے۔ ایک دن وہ اپنی بیوی کے ساتھ برلن کی زیر زمین ٹرین سے سفر کر رہے تھے، تو انھوں نے ٹرین میں بیٹھے افراد پر نظر ڈالی جو بظاہر خوش حال اور متومل نظر آ رہے تھے۔ لیکن ان کے چہروں پر بے اطمنانی اور حرماں نصیبی کے آثار دیکھے ۔ انھوں نے اپنی بیوی کو بھی اس بات کی طرف متوجہ کیا۔ تو انھوں نے بھی ایسا ہی محسوس کیا جب وہ گھر واپس ہوئے تو اتفاقاً ان کی نظر قرآن مجید پر پڑی۔ وہ اس کو بند کر کے دوسری جگہ رکھنا چاہتے تھے تو ان کی نظر اس آیت پر پڑھی “تم کو بہتات کی حرص نے غفلت میں رکھا۔ حتیٰ کہ تم (اپنی اپنی) قبروں کی زیارت کرو۔ تم جان لو گے، بے شک تم جان لوگے، پھر بے شک تم جان لو گے (قرآن سورہ تکاثر 102) اور قبول اسلام کے لیے دروازہ کھل گیا۔ وہ اپنے ایک ہندوستانی مسلمان دوست کے پاس گئے اور دو گواہوں کی موجودگی میں انھوں نے برلن کی سب سے بڑی مسجد میں ڈاکٹر عبدالجبار خیری کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔ ان کے دوست نے ان کا نام محمد اسد تجویز کیا۔ اسد کے ساتھ ان کی اہلیہ ایلسا نے بھی اسلام قبول کر لیا۔
محمد اسد اخبار کی نوکری چھوڑ کر سعودی عرب حج کے لیے گئے۔ ادائیگی حج کے 9روز بعد ان کی اہلیہ انتقال کر گئیں۔ اسد نے مکہ میں قیام کے دوران شہزادہ فیصل سے ملاقات کی جو اس وقت ولی عہد تھے اور بعد ازاں سعودی مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود سے ملاقات کی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد محمد اسد 6برس تک سعودی عرب میں مقیم رہے ۔ یہ عرصہ انہوں نے بادشاہ، عبدالعزیز ابنِ سعود کے مقرّب کی حیثیت سے شاہی محل کی سیاست کو قریب سے دیکھتے اور مدینہ میں عربی، قرآن، حدیث اور اسلامی تاریخ کی تعلیم حاصل کرنے میں گزارا۔
محمد اسد نے سعودی عرب میں دو شادیاں کیں۔ ان میں سےپہلی شادی ناکام رہی۔ 1930ء میں دوسری شادی شَمّر قبیلے کی ایک شاخ سے تعلق رکھنے والی مُنیرہ نامی خاتون سے کی جن سے اُن کے بیٹے، طلال نے جنم لیا۔ خیال رہے کہ طلال اسد اس وقت ممتاز بشریات دان ہیں۔بعد ازاں ان کی یہ شادی بھی ناکامی سے دوچار ہو گئی۔
محمد اسد کو سر زمینِ عرب سے ایک خاص اُنسیت تھی۔ وہ اسے اپنے آباء کا وطن اور اپنے اجداد کو عبرانیوں کا ایک چھوٹا سا بدوی قبیلہ قرار دیتے تھے۔ اُن کی شدید خواہش تھی کہ ابنِ سعود اس سر زمین پر اسلامی معاشرے کا احیا کریں اور انہوں نے بادشاہ سے اپنی اس تمنّا کا اظہار بھی کیا، مگر انہیں مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا اور پھر انہوں نے اپنی امیدیں سنوسی تحریک سے وابستہ کر لیں۔محمد اسد کا کہنا تھا کہ انہوں نے بادشاہ سے وابستہ اپنی توقّعات پوری نہ ہونے کے سبب ابنِ سعود سے قطعِ تعلق کر لیا تھا، لیکن بعض افراد یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اُن کی سعودی عرب میں دوسری شادی اپنے ساتھ زوال لے کر آئی کہ اُن کی اہلیہ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد پر بادشاہ کے خلاف سازش کا الزام عاید کیا گیا، جب کہ بعض افراد کا یہ ماننا ہے کہ 1929ء میں فلسطین میں عرب، یہودی تنائو تشدّد میں بدلنے کے بعد وہ اپنے یہودی پس منظر کی وجہ سے بادشاہ کے لیے بوجھ بنتے جا رہے تھے۔ تاہم، یہ بات یقینی ہے کہ انہوں نے ہندوستان، تُرکستان، چین اور انڈونیشیا کے سفر کے عزم کے ساتھ 1932ء میں سعودی عرب کو خیر باد کہہ دیا۔
اسد سنہ 1932 میں برطانوی ہندوستان آ گئے۔ یہاں لاہور میں ان کی ملاقات شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سے ہوئی،علامہ کے ساتھ فکر اسلامی کی تعمیر نو کا کام کیا۔ عرفات کے نام سے ایک رسالہ (انگریزی) جاری کیا۔۔ 1934ء میں محمد اسد نے ’’اسلام ایٹ دی کراس روڈز‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ شایع کیا، جو اسلامی فکر کے حوالے سے ان کا پہلا جرأت مندانہ کام تھا۔ اس کتابچے کو مغرب کی مادّہ پرستی کے خلاف ایک ہجو قرار دیا جا سکتا ہے کہ انہوں اس میں اسلام اور مغربی تہذیب کو ایک دوسرے کے بر خلاف قرار دیا، جسے اسلامی دُنیا میں بے حد پزیرائی ملی۔ انہوں نے صلیبی جنگوں اور جدید سامراجیت کے درمیان ایک درمیان ایک لکیر کھینچی اور مغربی مستشرقین کو اسلامی تعلیمات کو بگاڑ کر پیش کرنے کا ذمّے دار ٹھہرایا۔ بعد ازاں، محمد اسد کے اس کتابچے کے پاکستان اور بھارت میں کئی ایڈیشنز شایع ہوئے۔
1936ء میں حیدر آباد، دکن کے نظام نے ان کی سرپرستی میں ’’ اسلامی ثقافت‘‘ کے نام سے ایک اخبار نکالنا شروع کیا۔ اس روزنامچے کے پہلے مدیر، اسلام قبول کرنے والے انگریز، محمد مارمدوک پِکتھل تھے۔ قرآنِ پاک کے انگریزی ترجمے سے شُہرت حاصل کرنے والے پِکتھل کا انتقال 1936ء میں ہوا اور ان کی موت کے بعد محمد اسد نے مذکورہ اخبار کی ادارت سنبھالی۔ ’’اسلامی ثقافت‘‘ کی ادارت سنبھالنے کے نتیجے میں اسد کو مستشرقین اور ہندوستانی مسلمان علماء کی رفاقت میسّر آئی اور انہوں نے خود بھی عالمانہ تحریریں لکھنا اور متن ترجمہ کرنا شروع کیے۔
مارچ 1938ء میں نازی جرمنی نے آسٹریا پر قبضہ کر لیا تھا اور اکتوبر 1938ء میں محمد اسد نے ’’اسلامی ثقافت‘‘ کی ادارت سے مستعفی ہونے کے بعد ہندوستان چھوڑ دیا۔ لندن پہنچنے کے بعد انہوں نے ویزے میں توسیع کی درخواست دی اور 1939ء کے موسمِ گرما میں ہندوستان واپسی سے قبل اپنے خاندان کی جان بچانے کی کوشش کی۔ جرمنی کے پولینڈ پر حملے کے بعد ستمبر 1939ء میں برطانیہ نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اور دشمن مُلک کا شہری ہونے کے ناتے محمد اسد کو فوری طور پر ہندوستان میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہوں نے مختلف حراستی کیمپوں میں اُن جرمن، آسٹریائی اور اطالوی باشندوں کے ساتھ اگلے 6برس گزارے، جنہیں ایشیا کے مختلف علاقوں سے جمع کیا گیا تھا۔ انہیں اگست 1945ء میں جیل سے رہا کیا گیا، جب کہ اس سے قبل 1942ء میں اُن کے والد، سوتیلی ماں اور ایک بہن کو ویانا سے بے دخل کر دیا گیا اور حراستی کیمپوں میں اُن کی موت واقع ہوئی۔
حراستی کیمپ میں موجود قیدیوں کے درمیان محمد اسد واحد مسلمان تھے،جنہوں نے خود کو اپنے گرد و پیش اور جنگ سے بالکل لاتعلق رکھا اور مسلمانوں کی ثقافتی بد نظمی پر متفکّر رہے۔ انہوں نے یورپ کی جنگ کو کبھی بھی اپنی لڑائی نہیں سمجھا اور نہ ہی یہودیوں کی مشکلات کو اپنے لیے باعثِ آزار جانا اور بڑی استقامت کے ساتھ اپنے اسلامی تشخّص سے وابستہ رہے۔ رہائی حاصل کرنے کے بعد محمد اسد حصولِ پاکستان کے مقصد سے جُڑ گئے، جسے وہ جائے پناہ کی بہ جائے ایک مثالی اسلامی مملکت کے لیے ڈھانچے کے طور پر دیکھتے تھے۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد محمد اسدکو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہیں پہلا پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا۔، نئی ریاست میں محکمۂ اسلامی تعمیرِ نو کے ڈائریکٹر بن گئے اور نئی مملکت کے آئین کی خاطر تجاویز کی تشکیل کے لیے خود کو وقف کر دیا ۔
1949ء میں محمد اسد نے پاکستان کے محکمۂ خارجہ میں شمولیت اختیار کی اور وزارتِ خارجہ میں مشرقِ وسطیٰ ڈویژن کے سربراہ کے عُہدے تک پہنچے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے شعبہ مشرق وسطیٰ میں کام کرتے ہوئے محمد اسد ہی کی کوششوں سے سعودی عرب میں پاکستان کا پہلا سفارتخانہ کھلا۔
پنجاب کے پہلے وزیر اعلیٰ نواب افتخارحسین ممدوٹ نے ان کی سربراہی میں ایک محکمہ بنایا جس کانام تھا ’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کسٹرکشن۔‘ اسے موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل کا پیش رو ادارہ کہا جا سکتا ہے۔ بعد ازاں انھیں وزارت خارجہ میں مشرق وسطی کے ڈیسک کا انچارج بنا دیا گیا اور پھر اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب۔
برِصغیر میں مسلسل 20سال تک اقامت پزیر رہنے کے بعد 1952ء کے آغاز میں اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے ایک بااختیار وکیل کے طور پر نیویارک روانہ ہوگئے۔یوں وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔محمد اسد کی مغرب میں واپسی کے نتیجے میں ان کی شُہرت اور اسلام سے قُربت میں اضافہ ہوا۔
وہ مین ہٹن میں ایک کمرے میں تنہا رہتے تھے۔ نومبر 1952ء میں نیویارک میں پولا حمیدہ نامی خاتون سے چوتھی شادی کی اور اپنی زندگی کے اگلے 40برس ان ہی کے ساتھ گزارے۔ بتایا جاتا ہے کہ اُس وقت کے وزیرِ اعظم پاکستان، خواجہ ناظم الدّین نے ان کی شادی پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا تھا۔ 1952ء کے آخر میں انہوں نے اس امید پر استعفیٰ پیش کیا کہ اُن کا درجہ مستحکم ہو جائے گا، لیکن حیران کُن طور پر اُن کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا۔ تاہم، پاکستانی وزارتِ خارجہ سے اُن کا ناتا قائم رہا کہ جب 1953ء میں خواجہ ناظم الدّین کا اقتدار ختم ہوا، تو وہ وزارت میں واپس آ گئے۔ تاہم، اب انہیں مالی مشکلات کا سامنا تھا اور انہوں نے اپنے ایک امریکی دوست کے مشورے پر نیویارک کے ایک پبلشر، سائمن اینڈ شسٹر کو اپنی سوانح لکھنے کی پیش کش کی، جسے قبول کر لیا گیا۔
پھر محمد اسد نے وہ کتاب لکھنا شروع کی، جس نے عالم گیر انہیں شُہرت عطا کی۔ ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ نامی کتاب نیویارک میں لکھی گئی، 1954ء میں منظرِ عام پر آئی اور روحانی سکون کی تلاش اور صحرا میں مُہم جوئی کے امتزاج پر مشتمل اس کتاب کو دُنیا بَھر میں پزیرائی ملی۔ ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ کو قبولِ اسلام کے اعتراف کے طور پر لکھی گئی دیگر کُتب پر آج بھی سبقت حاصل ہے اور آج بھی دُنیا کی مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ جاری ہے، جو عام قاریوں اور ہم دردانِ اسلام پر اس کتاب کے طاقت وَر اثر کا بیّن ثبوت ہے۔محمد اسد نے پولا حمیدہ کے ساتھ جنیوا میں نقل مکانی کی اور یہاں قرآنِ پاک کے انگریزی ترجمے کا منصوبہ بنایا۔ وہ مرمدوک پِکتھل کے بڑے پیمانے پر مستعمل ترجمے سے مطمئن نہیں تھے کہ اُن کے خیال میں پِکتھل کا عربی سے متعلق علم محدود تھا۔ اس قدر وسیع پیمانے کے منصوبے کے لیے انہیں ایک سرپرست کی ضرورت تھی، جو بالآخر سعودی فرماں روا، شاہ فیصل کی شکل میں سامنے آیا۔ اسد نے ترجمے کا آغاز سوئٹزر لینڈ میں کیا اور 1964ء میں قرآنِ پاک کی پہلی 9سورتوں کا ایک محدود ایڈیشن شایع کیا۔ پھر انہوں نے مراکش کے شہر، طنجہ میں صنوبر کے درختوں اور بوگن ویلیا میں گِھرے ایک پُرسکون بنگلے میں رہائش اختیار کی، جہاں انہوں نے ترجمے کا کام مکمل کیا۔ 1980ء میں انہوں نے جبل الطّارق میں ’’ دی میسیج آف دی قرآن‘‘ کے عنوان سے قرآن کا مکمل ترجمہ اور تفسیر شایع کی، لیکن اس ترجمے نے بعض مسلمان علما کے درمیان اختلاف پیدا کر دیا۔ کچھ نے ان کے ترجمہ پر اسرائیلیت کے اثرات کا الزام بھی لگایا جو شاید ان کے اسرائیلی پس منظر کے باعث تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے سخت خلاف تھے۔ وہ ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست کے خواہاں تھے کہ جس میں یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کو مساوی طور پر سیاسی و ثقافتی حقوق حاصل ہوں اور ایک شہر کی حیثیت سے یروشلم کا نظم و نسق مسلمانوں کے پاس ہو اور یہ تینوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے کُھلا ہو۔
1982ء میں محمد اسد طنجہ سے سِنترا اوروہاں سے جنوبی اسپین روانہ ہو گئے۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں انہوں نے ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ کے آخری حصّے پر کام شروع کر دیا تھا، جس کا نام ’’ ہوم کمنگ آف دی ہارٹ‘‘ تجویز کیا گیا تھا۔ محمد اسد کا انتقال 23 فروری 1992ء کو ہوا اور انہیں غرناطہ کے ایک قبرستان میں دفن کیا گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں