ماریہ غلام نبی:
پیارے بچو! کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا بادشاہ بہت نیک اور انصاف پسند تھا اس کی رعا یا اس سے بہت خوش تھی۔ بادشاہ کی ملکہ وفات پا چکی تھی۔ اس کی ایک بیٹی شہزادی مہ پارہ تھی۔ شہزادی بہت اچھی اور نیک سیرت تھی۔ وہ بہت معصوم اور بھولی بھالی تھی۔ بادشاہ نے دوسری شادی کرلی۔ بادشاہ کی دوسری ملکہ کے ساتھ اس کی ایک بیٹی بھی تھی جو بہت بدصورت تھی۔ ملکہ اور اس کی بیٹی شہزادی مہ پارہ سے بہت حسد کرتی تھیں ۔ملکہ شہزادی پر بہت ظلم ڈھاتی۔ اسے کھانے کو کچھ نہ دیتی تھی۔ شہزادی مہ پارہ ایک دن اپنی سگی ماں کی قبر پر جا کر بہت روئی۔ اچانک اسے ایک آواز آئی کہ فلاں جگہ پہ ایک چشمہ ہے ،وہاں جائو اور اس میں ہاتھ ڈالنا۔
شہزادی مہ پارہ اس چشمے کے پاس گئی اوراس میں اپنا ہاتھ ڈالا تو ا س میں سے انواع واقسام کے کھانے نکلنے لگے۔ شہزادی نے جی بھر کر کھانا کھایا اور واپس آگئی۔ شہزادی اب روزانہ وہاں جاتی اور اسی طرح چشمے میں ہاتھ ڈال کر طرح طرح کےکھانے نکال کر کھاتی اور واپس آجاتی۔اب شہزادی کی صحت اور خوبصورتی بڑھتی جا رہی تھی۔ یہ دیکھ کر ملکہ نے اپنی بیٹی کو ایک دن شہزادی کے پیچھے بھیجا ۔ملکہ کی بیٹی نے شہزادی کو چشمے سے کھانا کھاتے ہوئے دیکھا تو بہت حیران ہوئی، اس نے واپس آکر اپنی ماں کو بتایا۔ اس کی ماں نے شہزادی کو گھر میں قید کردیا اور اپنی بیٹی اور کچھ غلاموں کو لے کر چشمے کے پاس پہنچی۔ وہ چشمے کو ختم کروانا چاہتی تھی لیکن جیسے ہی انہوں نے چشمے کو ختم کرنا چاہا۔ اس میں سے بہت بڑا اژدھا نکلا اور ملکہ اور اس کی بیٹی سمیت سب غلاموں کو بھی نگل گیا۔ شہزادی مہ پارہ اب آزادتھی۔ اس کی پریشانیاں اس کی سوتیلی ماں کیساتھ ہی ختم ہوچکی تھیں۔