حسنین نازش:
قسط .8
شعیب، فیصل اور میں واکنگ ٹور کے اگلے مرحلے میں کیرر ڈیل بسبے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ یہ آ کر نو گوتھک پل کے نیچے کھڑے ہوکر اوپر پل کی جانب دیکھا تو ہم حیران رہ گئے ۔ یہ پل بیسویں صدی کے آغاز میں اور یونیورسل نمائش کے لیے بنایا گیا تھا۔
Joan Rubió i Bellver کے شروع کردہ پروجیکٹ کو بارسلونا کے بہت سے اعلی معماروں نے رد کر دیا تھا۔ اس لیےجب کوئی بھی پل کے نیچے
کھڑے ہو کر اوپر دیکھےتو ایک کھوپڑی نظر آتی ہے۔ خنجر اس کھوپڑی کے آر پار ہوتا ہوا دکھائی دیتاہے۔
اگرچہ معمارروبیو نے اسے کیوں تراشا اس کی اصل وجوہات اب بھی ایک معمہ ہیں لیکن منصوبے کو کما حقہ عملی جامہ نہ پہنانے کے سبب معمار نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس نے سمجھا کہ اس کے خیال کو قتل کر دیا گیا ہے۔
تاہم، کئی افسانے بھی اس کھوپڑی کے متعلق مشہور ہیں-
سب سے معروف فسانہ یہ ہے کہ جب خنجر کھوپڑی سے الگ ہو جائے گاتو بارسلونا شہر تہ و بالا ہو جائےگا۔ کوئی تو یہ کہتا ہے کہ یہ کہ پل عبور کرتے وقت اس کھوپڑی کا مشاہدہ کرنے والوں کے لیے بد نصیبی کا سبب بنے گی۔
واکنگ ڑور کے اگلے مرحلے میں بارسلونا کے قلب میں لارامبلا کی بغلی گلیوں سے گھماتے ہوئے شعیب ہمیں ایک تنگ گلی Carrer D’Estruc پر Alchemist House کی باقیات کے پاس لے گیا۔ اس گھر کی نسبت ایک مشہور کیمیا دان
Astruc Sacanera
سے تھا۔
شعیب نے بتایا:
“کیمیا دان کے دار فانی سے کوچ کرنےکے صدیوں بعد لوگوں نےدعویٰ کیاکہ اس گھر کے ارد گرد عجیب و غریب واقعات رونماہورہے ہیں۔
The Alchemist House
ایک ایسی گلی میں شہر بارسلونا کے بھرپور ماضی اور صوفیانہ میلان کے ثبوت کے طور پر اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ کھڑا ہے جو کبھی شہر کی دیواروں سے باہر ہوا کرتا تھا۔
Carrer D’Estruc، بارسلونا کے قلب میں واقعہ ایک عجیب و غریب گلی کے ایک ایک چپے چپے کی ایک دلچسپ تاریخ رکھتی ہے جو صدیوں پرانی ہے۔
14 ویں اور 15 ویں صدیوں کے دوران، کیمیا گری بارسلونا میں پروان چڑھی جس نے دنیا کے کونے کونے سے علماء، نجومیوں اور اہل علم وہنر کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ Carrer D’Estruc ان کیمیا دانوں کے اجتماع کا مرکز بن گئی جنہوں نے کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانے اور بنیادی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس گلی میں ہی کیمادان نے ایک خاص کیمائی عمل کر کےمخصوص توانائی مخفی کر دی ہےجس سے ان کے کیماوی تجربات کے لیے بہترین فضا اور مقام میسر آیا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ برازیلین ناول نگار پاولو کوہلو نے اپنے شہرہ آفاق ناول دی الکیمسٹ کے مرکزی کرداروں کو سپین ہی سے تراشا۔
اس شہرہ آفاق ناول کے مطابق شہر اندلوسیہ میں ایک لڑکا رہتا تھا جس کا نام سنٹیاگو تھا- اس لڑکے کو گھومنا پھرنا بہت پسند تھا- اس لیے اس نے اپنے باپ سے ضد کی کہ وہ اسے چند بکریاں خرید کے دے تاکہ وہ گاؤں گاؤں اور شہرشہر گھومنے کا اپنا شوق بھی پورا کر سکے اور گزر بسر کا۔بھی کوئی سامان پیدا کرسکے۔
اس کے باپ نے اسے بکریاں خرید دیں۔ سینٹیاگو تعریفہ نامی گاؤں میں ایک لڑکی سے ملا اور دیکھتے ہی اسے دل بیٹھا تھا- اب اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ دوبارہ اسی گاؤں میں جائے تاکہ اس لڑکی سے ملاقات کر سکے- اس لیے وہ اپنی بکریوں سمیت تعریفہ گاؤں کی طرف نکل پڑا ۔
تعریفہ کے راستے میں رات ہو گئی سینٹیاگو نے سوچا کہ اسے آرام کر لینا چاہیے اور صبح اٹھ کے وہ اگے چل دے گا- قریب ہی سنٹیاگو کو ایک پراناچرچ نظر آیا جو بالکل ویران پڑا تھا-سینٹیاگو نے اپنی بکریوں کو اس چرچ کے اندر گھسایا اور خود باہر آکے ایک سیکہ مورنامی درخت کے نیچے سو گیا- سوتے ہوئے اس نے خواب دیکھا کہ اہرام مصر کے نیچے بہت زیادہ پوشیدہ ہے- یہ خزانہ اسے اپنی طرف بلا رہا ہے- اتنے میں اس کی انکھ کھل گئی – وہ یہ خواب پہلے بھی کئی بار دیکھ چکا تھا۔ آج اس نے سوچا کہ آج وہ ضرور کسی صاحب رائے سے اس خواب کی تعبیر پوچھے پوچھے گا- صبح اٹھ کے وہ ایک عورت کے پاس گیا جو خوابوں کی تعبیر بتاتی تھی-
اس عورت نے خواب سن کر اسے بتایا کہ وہ اسے اس کے خواب کی تعبیر توبتا دے گی لیکن اسے وعدہ کرنا ہوگا کہ جب اسے وہ خزانہ مل جائے گا تو خزانے کا دسواں حصہ اس عورت کو دے گا ۔
سینٹیاگونے حامی بھر لیکن اس عورت کی بات سن کر سینٹیاگو
کو یقین نہ آیا-
وہ وہاں سے واپس چلا آیا- واپسی پر وہ بازار میں کسی کام سے رکا- وہیں ایک بوڑھا اس کے قریب آکے بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا – اچانک ہی اس بوڑھے نے کہا کہ وہ اسے خزانے کو حاصل کرنے میں مدد دے سکتا ہے-
سینٹیاگو نے حیرت سے اس بوڑھے آدمی کی طرف دیکھا لیکن پھر فورا ہی اسے حال آیا کہ یقینا اس عورت نے اس بوڑھے ادمی کو اس کے پیچھے لگایا ہوگا تاکہ مجھے بے وقوف بنا سکے- لیکن اس بوڑھے آدمی نے کہا کہ وہ کسی عورت کو نہیں جانتا- اس کے بعد بوڑھے نے اس کے والد اور والدہ کا نام زمین پہ لکھا اور ساتھ ہی کچھ راززمین پر لکھ ڈالے جو سینٹیاگوکے سوا کسی دوسرےکو معلوم نہ تھے ۔
وہ بہت حیران ہوا اور توجہ سے اس بوڑھے کی بات سننے لگا- بوڑھا بولا کہ وہ اسے خزانے کا پتہ بتا سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اسے اپنی بکریوں کا دسواں حصہ ابھی دے دے-
سینٹیاگو اور بوڑھے کے مابین تھوڑی تکرار ہوتی ہے اور بالآخر سینٹیاگو اسی وقت اپنی بکریوں کا دسواں حصہ اس بوڑھے کو پیش کر اور بقیہ بکریاں بیچ کر زاد راہ اکھٹا کر کے سفر پہ نکلنے کے لیے تیاری کر لی –
جاتے ہوئے اس بوڑھے نے لڑکے کو خزانے تک پہنچنے کے لیے خاص ہدایات دیں اور ساتھ ہی دو پتھر بھی عنایت کیے جن کی مدد سے وہ قدرت کے اشاروں کو اچھی طرح سمجھ کے ان کے مطابق بہتر فیصلہ کر سکے گا اور ممکنہ مصیبت سے نجات پا سکے گا۔
اس کے بعد سینٹیاگو ایک قریبی بحری اڈے پرپہنچ گیا اور افریقہ کی طرف جانے والے بحری جہاز پر سوار ہو گیا- سب سے پہلے وہ مراکش کے ایک شہر تنجیر میں پہنچا اور وہاں کچھ دن قیام کیا- یہاں پانچ ڈاکووں نے اس پر اچانک حملہ کیا اور اسے اس کے سارے پیسوں اور سونے کے ان سکوں سے محروم کردیا جو اس نے زاد راہ کے طور پر بکریاں بیچ کر اکھٹا کیا تھا۔ پہلے تو سینٹیاگو دل برداشتہ ہوا لیکن پھر ہمت کر کے اپنے مقصد کے حصول کے لیے چھ ماہ تک ایک
کرسٹل مرچنٹ کی دکان پہ معمولی نوکری کر لی۔وہ یہاں سے ملنے والی تنخواہ کو جوڑتا رہا تاکہ اپنے ادھورے مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے-
ایک دن اسے پتہ چلا کہ مراکش سے ایک قافلہ تیار ہے جو صحرائے صحارا سے نکل کر اہرام مصر تک جا پہنچے گا۔
سینٹیاگو نے دکان دار سے اجازت طلب کی اور قافلے کے ساتھ جا ملا- قافلے میں سینٹیاگو کی ملاقات ایک انگلش مین سے ہوتی ہے- وہ انگلینڈ سے آیا ہوا ہے اور وہ ایک الکیمسٹ کی تلاش میں جا رہا ہے جو لوہے اور دوسری دھاتوں کو سونے میں بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ الکیمسٹ کے گاؤں پہنچتے ہیں تو گاؤں سے تھوڑی دور دو قبیلوں میں جنگ چھڑ جاتی ہے اس لیے وہ دونوں اسی گاؤں میں رک جاتے ہیں- وہ الکیمسٹ کے گھر کا پتہ پوچھتے ہوئے ایک کنویں پہ پہنچ جاتے ہیں جہاں پہ کچھ عورتیں کنویں سے پانی نکال رہی ہوتی ہیں وہیں سنٹیاگو کی ملاقات ایک فاطمہ نامی لڑکی سے ہوتی ہے- وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں- اس کے بعد سینٹیاگو روزانہ اس کنویں پر فاطمہ سے ملنے جاتا ہے۔
سینٹیاگو اور وہ انگلش مین الکیمسٹ کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ روایت یہی کہتی ہے کہ اس وقت ہم تینوں جس مکان کے باہر کھڑے خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ یہی الکیسمٹ کااصل گھر تھا۔ یہیں۔صدیوں پہلے کیمادان اکھٹے ہو کر کیمیا گری کے نت نئے تجربات کرتے تھے۔ ان تجربوں میں سب سے اولین تجربہ یہی ہوتا تھا کہ آیا دیگر دھاتوں کےکیمیائی ملاپ سے سونا بنایا جاسکتا ہے۔ اس ناممکن کو ممکن بنانے کی غرض سے صدیوں تک کیمیاگر اپنی ساری ساری عمریں اور سرمایہ گنواتے رہے۔
خیر بات ہورہی تھی الکیمسٹ ہاوس بارسلونا کی جسے مشہور ناول الکیمسٹ سے مماثلت تھی۔
الکیسمٹ سے ملاقات کے دوران الکیمسٹ انگلش میں سے کہتا ہے کہ اتنے لمبے عرصے سے تم میری تلاش میں ہو ،کیا اس دوران کبھی تم نے خود کوشش کی کہ تانبے اور دوسری دھاتوں کو سونے میں تبدیل کر سکو-
انگش ادمی جواب دیتا ہے نہیں- اس نے کبھی کوشش نہیں کی- جس کے جواب میں الکمسٹ کہتا ہے کہ پھر جاؤ اور پہلے خود کوشش کرو –
سینٹیاگو اسی گاؤں میں رہنے لگتا ہے۔کافی دن گزارنے کے بعد وہ قدرت کے اشاروں کو سمجھنے لگتا ہے۔اس کے پاس اس پہلے والے بوڑھے آدمی کے دیے ہوئے دونوں پتھر اب بھی اس کے پاس یوتے ہیں-
ایک دن وہ صبح اٹھتا ہے تو دو بازوں کو آپس لڑتے ہوئے دیکھتا ہے اور سمجھ جاتا ہے کہ اس گاؤں پر حملہ ہونے والا ہے- اس لیے وہ گاؤں کے سردار کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک فوج اس گاؤں پہ حملہ کرنے والی ہے – اس کی پیش گوئی کے بعد سردار اپنے گاؤں کی فوج کو حملے کے لیے تیار رہنے کا حکم دے دیتا ہے- ساتھ ہی وہ سینٹیاگو سے کہتا ہے کہ اگر اس کی بات پوری نہ ہوئی تو اسے قتل کر دیا جائے گا- اس سے اگلے دن واقعی ایک فوج اس گاؤں پہ حملہ کر دیتی ہے- پیشگی تیاری کے سبب اس گاؤں کی فوج جنگ جیت جاتی ہے- گاؤں کا سردار سینٹیاگو سے بہت متاثر ہوتا ہے اور انعام میں اسے ڈھیر سارے سونے کی سکےعنایت کرتا ہے اور اپنے گاؤں کا کونسلر بھی بنا دیتا ہے –
سینٹیاگو سوچتا ہے کہ اسے اس گاؤں میں رک جانا چاہیے- اس کے پاس سونے کے سکے بھی ہیں اور وہ اس گاؤں میں کونسلر بھی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی۔محبوبہ فاطمہ بھی یہیں رہتی ہے- اگلے دن صبح جب سینٹیاگو کنویں پر فاطمہ سے ملتا ہے تو فاطمہ اس سے اتفاق نہیں کرتی- فاطمہ اسے سمجھاتی ہے کہ وہ صحرائی عورت ہے۔ صحرائی عورتوں کو انتظار کرنے کی عادت ہوتی ہے- اس لیے وہ اس کی فکر نہ کرے۔ اسےاپنا مقصد پورا کرنا چاہیے۔
اسی رات سینٹیاگو الکیمسٹ سے ملتا ہے اور اسے ساری بات بتاتا ہے- وہ اسے سمجھاتا ہے اور خود بھی سینٹیاگو کے ساتھ خزانے کی تلاش میں نکل پڑتا ہے ۔
جب وہ دونوں سفر پہ نکلتے ہیں تو کچھ آگے جا کے کسی دوسرےقبیلے کے لوگ انہیں گرفتار کر لیتے ہیں اور جاسوسی کا الزام لگا دیتے ہیں- الکیمسٹ قبیلے کے سردار کو بتاتا ہے کہ وہ جاسوس نہیں ہے بلکہ وہ صرف شکار کے لیے نکلے تھے اور انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے- قبیلے والے یقین نہیں کرتے اور سینٹیاگو کے سونے کے سکے اس سے چھین لیتے ہیں۔ الکیسمٹ قبیلے کے سردار سے کہتا ہے کہ یہ لڑکا ایک جادوگر ہے جو تین دن میں اپنے آپ کو ہوا میں بدل دے گا اور یہ ہوا اتنی تیز ہو سکتی ہے کہ تمہارے سارے قبیلے کو اڑا لے جائے گی-
یہ سن کر سردار خوب ہنستا ہے اور پھر غصے میں اس سے کہتا ہے کہ اگر اس لڑکے نے تین دن کے اندر اندر اپنے اپ کو ہوا میں نہ بدلا تو وہ ان دونوں کو قتل کروا دے –
سینٹیاگو کو الکمسٹ پر بہت غصہ آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ ایسا کرنا ناممکن ہے- اب ہم دونوں جان سے جائیں گے- الکمسٹ جواب دیتا ہے کہ اگر میں یی نہ کہتا تو اب تک ہم دونوں مارے جا چکے ہوتے لیکن اب ہمارے پاس اپنی جان بچانے کا ایک موقع ہے –
الکیمسٹ سینٹیاگو کی طاقت اور قدرت کے ساتھ شناسائی سے واقف تھا اس لیے اس نے اسے کہا کہ قدرت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرو ۔
تیسرے دن سینٹیاگوریت کے سب سے اونچے ٹیلے پہ جا کھڑا ہوتا ہے اور سورج کی طرف منہ کر کے اپنی ذات کو کائنات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے اور آخر کار ایک تیز طوفان لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے- طوفان سے ڈر کے قبیلے کے لوگ انہیں رہا کر دیتے ہیں- اس کے بعد الکیسمٹ اور سینٹیاگو آگے بڑھ جاتے ہیں ۔
کچھ دور سفر کے بعد وہ ایک مانک (سنیاسی)کےجھونپڑے میں جاتے ہیں۔ یہاں الکیسمٹ تانبے کو سونے میں بدلتا ہے – سونے کے چار ٹکڑے کرتا ہے۔ ایک مانک کو دیتا ہے، دوسرا سینٹیاگو کودیتا ہے اور تیسرا خود رکھ کر چوتھا ٹکڑا امانت کے طور پر مانک کے پاس رکھوا دیتا ہے۔
یہاں سےالکیمیسٹ سینٹیاگوکو اکیلا چھوڑ کر کسی انجانی منزل کی طرف چل پڑتاہے۔ پھر سینٹیاگو کا اہرام مصر کا آخری سفرشروع ہوجاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر سینٹیاگو کھدائی شروع کر دیتا ہے تاکہ خزانے کو نکال سکے۔ کھدائی کے دوران چند چور سینٹیاگو کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور اس کا سونے کا ٹکڑا چھین لیتے ہیں- ان کا خیال تھا کہ یقینا سینٹیاگو نے اسی جگہ کچھ اور سونا بھی چھپایا ہوگا جسے نکالنے کے لیے وہ سینٹیاگو پر تشدد کرتے ہیں- سنٹیاگوان کے تشدد کی وجہ سے مجبور ہو کر انہیں اپنے خواب کے بارے میں بتا دیتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے خواب کی تکمیل کی غرض سے یہاں تک آن پہنچا ہے۔ یہ سن کر چور بہت ہنستے ہیں- ان میں سے چوروں کا سردار کہتا ہے کہ ایسا ہی ایک خواب میں نے بھی دیکھا تھا-
میں نے خواب میں دیکھا کہ سپین میں تعریفہ نامی ایک گاؤں ہے- اس گاؤں میں ایک ٹوٹے ہوئے چرچ کے پاس سیکہ مور نامی ایک درخت ہے جس کے نیچے خزانہ دبا ہوا ہے لیکن میں تو کبھی اس خزانے کو ڈھونڈنے نہیں نکلا ۔
بھلا کوئی ایسے اپنے خوابوں کے پیچھے لگتا ہے؟
اس کے بعد چوروں کا سردار سینٹیاگو کو ذہنی معذور سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے- چوروں کے جانے کے بعد سینٹیاگو خوب ہنستا ہے اور اب اسے پتہ چلتا ہے کہ اصل میں اس کا مطلوبی خزانہ تو اسی درخت کے نیچے دبا ہوا تھا جس درخت کے نیچے وہ سویا تھا-
وہ وہاں سے واپسی کا سفر شروع کرتا ہے اور مطلوبہ درخت کے نیچے سے خزانہ نکال لیتا ہے اور واپس فاطمہ کے گاؤں کی طرف چل پڑتا ہے-
یو الکیمسٹ ہاؤس کا نظارہ بلکہ یوں کہیے کہ زیارت کرنے کے بعد “الکیمسٹ” سارے کا سارا ناول میری نظروں اور میری یادداشت کے کونوں کھدروں سے نکل کر میرے سامنے اگیا- الکیسمٹ، سینٹیاگو، خواب کی تعبیر بتانے والی پراسرار عورت، چور الغرض اس ناول کا ہر کردار میری آنکھوں کے سامنے جیسے محو۔رقصاں ہو گیا ہو۔
اگرچہ امتداد زمانہ کے نشانات اس گھر کی رونق کو مدھم کر چکے ییں۔ وہ قصبہ اس وقت شہر کا مصروف ترین حصہ بن چکا ہے۔ کسی۔دوجے کو یقین ہو یا نہ ہو مجھے یقین ہوچلا کہ ہو نہ ہو اس ناول کے کردار الکیمسٹ کا یہی گھر ہوگا۔
میں نے فیصل اور شعیب کواپنے اس تیقن کے متعلق بتایا۔ وہ دونوں قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔
جاری ہے….