نعمان صابری:
بچے حسب معمول سکول سے چھٹی کے بعد گھر کے کام کاج اور سکول کے ہوم ورک سے فارغ ہو کر چاچا حاضر دماغ کی کھلی اور پر فضا بیٹھک میں بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے۔ایک لڑکے نے چاچا حاضر دماغ کے دماغ کی چابی گھمائی اور انہیں یاد دلایا کہ ’’ آپ نے گدھے کے سینگ کے بعد ہاتھی کے دانت پر ہم بچوں کو کچھ معلومات دینا تھیں۔ ‘‘ چاچا حاضر دماغ بچوں کے لئے چائے بنا رہے تھے اور چولہے میں سر دیئے ہوئے تھے۔ آنکھیں آنسوؤں سے شرابور ہو رہی تھیں،کسی بچے نے آوازہ کسا کہ ’’ چاچا جی،چاچی یاد آ رہی ہے ‘‘ ،یہ خوفناک آواز سن کر چاچا حاضر دماغ کے آنسو اور تیز ہوگئے جبکہ بچے کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔
چاچا حاضر دماغ کے آنسوؤں کی سب سے بڑی وجہ چولہے میں جلنے والی گیلی لکڑی کا دھواں تھا کیونکہ بغیر پھونکوں کے چولہا نہیں جل رہا تھا ۔وہ چراغ ہوتے ہیں جو پھونکوں سے بجھائے نہیں جا سکتے لیکن چولہے پھونکوں کے بغیر جلائے نہیں جا سکتے اورگیلی لکڑی تو کسی صورت پھونکوں کا سہارا لئے بغیر نہیں جلتی لیکن مجبوری یہ تھی کہ بچوں کو چائے ضرور پلانی تھی۔ چاچا حاضر دماغ کی صرف چائے اور باتیں ہی تو تھیں جنہوں نے بچوں کو اس کا گرویدہ بنا رکھا تھا۔
چاچا حاضر دماغ نے بڑی جان جوکھوں اور کوشش بسیار کے بعد چائے کی پتیلی چولہے پر سے اتاری اور آنکھوں پر عینک چڑھا کر ذرا نیچے کھسکا کر ناک کے آخری کونے پر فٹ کی اور انگلی کا اشارہ کر کے کہا ’’ اوشرارتی کاکے تو نے مجھے یاد کروایا ہے ناں۔۔۔ہاتھی کے دانت۔ ‘‘
شرارتی کاکا عاجزی سے بولا ’’جی چاچا جی۔۔۔ ‘‘
اتنی دیر میں چاچا حاضر دماغ چائے پیالیوں میں انڈیل چکے تھے اور باری باری بچوں کے سامنے پینے کے لئےرکھ رہے تھے۔اب چاچا حاضر دماغ نے عینک ناک سے اوپر کی طرف کھینچی اور آنکھوں کے اوپر فٹ کی اور پھر شرارتی کاکے کی طرف دیکھا جو چائے کی پیالی ہونٹوں سے لگائے چائے کی چسکی لینے کی کوشش کر رہا تھا مگر چائے گرم ہونے کے سبب وہ بھر پورچسکی لینے میں کامیاب نہ ہوسکا اور چائے کی پیالی دوبارہ نیچے رکھ دی۔چاچا حاضر دماغ نے چائے کی بھرپور چسکی لی اور بچوں سے کہنے لگے کہ ’’ کیا سبھی بچے اپنے گھر اور سکول کے کام کاج سے فارغ ہو کر آئے ہیں،سبھی بچے یک زبان ہو کر بولے ’’جی۔۔۔چاچا۔۔۔۔جی ‘‘
چاچا حاضر دماغ نے بچوں کو تنبیہ کی کہ ’’ کوئی بچہ ماں باپ کی اجازت اور گھر اور سکول کے کام ادھورے چھوڑ کر کبھی میرے پاس نہ آئے کیوں کہ ایسے بچے نافرمان اور غیر ذمہ دار ہوتے ہیں اور خواہ مخواہ بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ ‘‘ چاچا حاضر دماغ نے خوب تسلی کرنے کے بعد بچوں سے کہا کہ ’’ جیسا کہ میں نے آپ بچوں کو بتایا تھا کہ گدھے کے سر سے سینگ غائب ہو گئے تھے۔کیا آپ میں سے کسی کو معلوم ہے کہ وہ سینگ کہاں گئے تھے۔ ‘‘
سب بچوں نے گردنوں پر رکھا ہوا سر ہلا دیا لیکن منہ سے کوئی نہ بولا۔
چاچا حاضر دماغ نے سب بچوں کو سمجھایا کہ ’’جب بھی کوئی بات پوچھی جائے اس کا جواب زبان سے ہاں،ناں کی صورت میں دینا چاہئے،گردن پر پڑے ہوئے پانچ کلو کے سر کو دائیں بائیں گھما دینا اچھی بات نہیں ہوتی۔میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ سینگ کہاں گئے تھے جو گدھے نے بارہ سنگھے سے اپنی شان و شوکت بڑھانے اور خچر کو ڈرانے کےلئے تھے مانگے تھے۔ پیارے بچو! وہ سینگ ہاتھی چوری کر کے لے گیا تھا اور اس سارے معاملے میں بندر پیش پیش تھا جس نے ہاتھی کی مدد کی اور گدھے کو سینگوں سے محروم کیا۔ہاتھی نے جب گدھے کے سینگ چوری کئے تو اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ ان سینگوں کا کیا کرے۔
اب چوری کر کے پچھتانے کا کیافائدہ اس موقع پر بندر بھی ڈر کے مارے ہاتھی کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ہاتھی نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح ان سینگوں کو سر پہ سجا لے مگر بات نہیں بنی کیونکہ ہاتھی کے کان بڑے ہونے کی وجہ سے سینگ اس کے سر پر فٹ نہ ہوسکے تو وہ بہت پریشان ہوا،پریشانی کے سبب وہ رونے ہی لگا تھا کہ یکدم اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی،پہلے تو اس نے اپنے پنکھ جیسے کانوں کو خوب زور سے ہلایا تاکہ دماغ کو ٹھنڈی اور تروتازہ ہوا ملے اور یہ بات مستند ہوسکے کہ جو ترکیب اس کے ذہن میں آئی ہے وہ واقعی کارآمد ہے،کچھ دیر تو وہ خواہ مخواہ الجھا رہا لیکن جلد ہی اس نے اپنی ترکیب کو عملی جامہ پہنایا اور اس نے ان سنیگوں کو اپنے دائیں بائیں جبڑوں میں پھنسا لیا اور یوں اس نے سینگوں کے دانت بنا لئے۔
جب ہاتھی نے دیکھا کہ اس کے دانت اتنے لمبے ہو گئے ہیں تو وہ بہت خوش ہوا کیونکہ وہ اپنے اندرونی چھوٹے دانتوں کی وجہ سے بہت پریشان تھا اور وہ سوچتا تھا کہ اللہ نے اسے جتنا بڑا قد کاٹھ دیا ہے اس حساب سے دانت بہت چھوٹے دیئے ہیں۔ ہاتھی اپنے بڑے بڑے دانت دیکھ کربہت خوش ہوا اور سوچنے لگا کہ اب وہ ان بڑے بڑے دانتوں سے خوب پیٹ بھر کر گھاس کھائے گا،وہ خوشی خوشی جنگل میں ہری بھری گھاس چرنے لگا۔
لیکن یہ کیا!
یہ بڑے بڑے دانت تو گھاس کاٹنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔اس نے جب بڑے دانتوں کا کارنامہ دیکھا تو وہ بہت رویا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہاتھی اس وقت کو یاد کر کے بہت روتا ہے۔بالآخر ہاتھی کو بڑے دانت دکھاوے کے لئے رکھنے پڑ گئے اور چھوٹے دانتوں کے ساتھ گھاس کھانا شروع کر دی۔
پیارے بچو! اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری نہیں کرنی چاہئے بلکہ ہر حال میں اس پاک ذات کا شکر ادا کرنا چاہئے تاکہ وہ خوش ہو کرمزید اپنی نعمتوں سے نوازے۔ ‘‘
چاچا حاضر دماغ کی طنز و مزاح اور نصیحت آموز باتیں سن کر بچے بہت خوش ہوئے اور شام کے وقت واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور چاچا حاضر دماغ تن تنہا حقہ پینے میں مصروف ہوگئے۔