بغل میں بچہ شہر میں ڈھنڈورا،کچھ ایسی ہی کہاوت ایلین کے معاملے میں پوری اترتی معلوم ہوتی ہے۔ درحقیقت ان ایلینز کے بارے میں سوالوں کے جوابات جن کی تلاش انسان دہائیوں سے کر رہے ہیں، وہ کہاں رہتے ہیں، کیسے اور کب زمین پر آتے اور جاتے ہیں، ناسا کی ایک تحقیق میں سامنے آئے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے تو زمین پر ایلین موجود ہیں اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہم انسان ہیں۔
ناسا نے ایک سیارچے سے نمونے اکٹھے کیے ہیں جو بہت حیران کن ہے۔ اس نمونے میں ڈی این اے اور آر این اے کے پانچ نیوکلیو بیس اور پروٹین میں پائے جانے والے 20 امینو ایسڈز میں سے 14 شامل ہیں۔ اس نے ایک نئے سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا زمین پر زندگی کسی کشودرگرہ سے آئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان وہ اجنبی ہیں جن کی زندگی کی ابتدا زمین سے نہیں بلکہ اس کے باہر سے ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ OSIRIS-REx کا پورا نام Origins، Spectral Interpretation، Resource Identification اور Security Regolith Explorer ہے۔ یہ امریکہ کا پہلا مشن ہے، جسے شہاب ثاقب بینوکے نمونے لانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اس نے تین سال قبل بینو سے نمونے جمع کیے تھے۔ تب سے یہ زمین کی طرف لوٹ رہا تھا۔ 45 کلوگرام کیپسول میں تقریباً 250 گرام نمونہ تھا۔
ناسا کے سیمپل ریٹرن مشن میں یہ بات سامنے آئی کہ OSIRIS-REx خلائی جہاز کے ذریعے لائے گئے مٹی اور دھول کے نمونے دنیا کے لیے بہت مفید ہیں۔ ناسا کے اس خلائی جہاز نے 1650 فٹ چوڑے سیارچے کا نمونہ لیا اور اسے زمین پر بھیج دیا۔ تحقیقات کے بعد ناسا نے کہا کہ اس نمونے کی پہلی رپورٹ سامنے آئی ہے۔نیچر آسٹرونومی میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں ناسا کے ماہر فلکیات ڈینیئل گیلون نے کہا کہ ہم نے جو نتائج حاصل کیے ہیں وہ انتہائی حیران کن ہیں۔ یہ نمونے زندگی کو بنانے والے بنیادی عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں۔یہ پتھریلے اجسام ہیں جو سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ یہ سیاروں سے چھوٹے ہیں اور ان کا ماحول نہیں ہے۔ کشودرگرہ کا سائز کنکروں سے لے کر جنات تک 600 میل (1,000 کلومیٹر) تک ہوتا ہے۔ یہ سیارچے وقتاً فوقتاً زمین پر گرتے رہتے ہیں۔ان نمونوں پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ اس میں زندگی کے عناصر موجود ہیں۔ یہ نمونہ 1650 فٹ چوڑے کشودرگرہ سے آیا ہے۔
بینو نامی شہاب ثاقب سےناسا نے یہ نمونہ یہ جاننے کے لیے حاصل کیا تھا کہ وہ شہاب ثاقب کتنا مضبوط ہے۔ تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اسے میزائل کے ذریعے خلا میں اڑا دیا جا سکتا ہے یا اس کی سمت تبدیل کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس دریافت نے مختلف حیران کن نتائج دیے۔ ناسا کی جانب سے بتائی گئی ایک اور انتہائی اہم بات یہ ہے کہ یہی شہاب ثاقب 159 سال بعد زمین سے ٹکرائے گا۔ بینو شہاب ثاقب 24 ستمبر 2182 کو زمین سے ٹکرا سکتا ہے۔ اس کے ٹکرانے سے 22 ایٹمی بموں کے پھٹنے کے برابر تباہی ہو گی۔ ظاہر ہے اس سے زمین پر تباہی آئے گی، یہ تمام زندگی کو تباہ کر سکتی ہے۔